مالیگاؤں: میری زاہد بھائی سے آخری گفتگو ان کے وصال سے چار روز قبل ہوئی تھی، آخری وقت بھی ان کے الفاظ یہی تھے کہ گورنمنٹ اور مائناریٹی کی کئی اسکیم ہیں تم ان پر کام کرو جن سے بے روزگار خواتین کا بھلا ہوسکتا ہے
زاہد بھائی صاحب، میرے والد کے قریبی شناسا اور دوستوں میں تھے، آپ سے میری پہچان
2015 میں ہوئی تھی اور نہایت ہی مختصر عرصہ میں، میں جان گئی تھی کہ زاہد بھائی ایک بے انتہا مخلص اور سماج کے ہمدرد انسان تھے.
ان کے وصال کی خبر نے مجھے ٹراما کی کیفیت سے گزرنے پر مجبور کیا، مجھے کئی دن تک یقین نہیں ہوا کہ کل تک جو شخص مجھے وومن ہائی کمیشن، مائناریٹی اسکیم نیز اسکالر شپ کے بارے میں متعدد بار سمجھا رہا تھا، وہ اب ہم میں نہیں، آپ کی تعزیتی نشست میں میں کچھ بھی نا کہہ سکی.
زاہد بھائی صاحب، نے ہمیشہ مجھے اپنی چھوٹی بہن کا درجہ دیا اور بہت حوصلہ دیا، لکھنے کی ترغیب دی
اور کھل کر تحریروں پر حوصلہ افزائی کی،
سماج شاید یہ نا جانتا ہو کہ کئی ایسے طلباء گزرے ہیں جن کی پڑھائی کی پوری ذمہ داری برادر، زاہد بھائی نے نبھائی،
مجھے کسی طالب علم یا طالبہ کا پتہ چلتا، میں انہیں آگاہ کرتی
کہتی، زاہد بھائی ایک جگہ دسویں کی کتابیں چاہئے،
جواب ملتا، "ایڈرس بھیجو"
کبھی کہتی، بھیا، ایک جگہ یونیفارم اور بستہ نیز راشن کی ضرورت ہے
کہتے، "سمجھو پہنچ گیا"
اور واقعی پہنچ جاتا
کسی غریب فیمیلی کی عید ہوتی زا ہد بھائی کسی کو خبر کئے بنا، غریب بچوں کو عید کے کپڑے، چپل، سوئیاں دلاتے
اور صدقہ و خیرات کا انتظام کرتے اور ہمیشہ کہتے، اللہ میرے بچوں کو سدا سلامت رکھے(آمین)
چھ مہینے سال بھر میں کبھی زاہد بھائی صاحب سے ملاقات ہوتی، کبھی آرٹیکل پر تبادلہ خیال ہوتے، کبھی اخبارات کے کور پیج سیٹ ہوتے، کبھی عید نمبر کے سرورق وہ خوشی خوشی دکھاتے، راۓ طلب کرتے اور میں چنندہ ڈیزائن سے کسی ایک کو اوکے کرتی
کبھی اخبار میں اشتہار دے کر پیسے نا دینے والوں کا حساب کاؤنٹ ہوتا، زاہد بھائی حساب کر کے بہت ہنستے، کہتے میرے اخبار کا دیوالیہ نکل جاۓ گا، سال سال بھر لوگ بنا پیسے کے اشتہار لگوا لیتے ہیں
ساجد مجھے پھپھو کہتا دوڑ کر چاۓ لاتا،
آدھے گھنٹے کی مختصر گفتگو، سیر حاصل ہوتی، سارے جہان کا نالج سمیٹ کر میں آتی، اور ان کے مشوروں کی روشنی میں، آگے کا لائحہ عمل ترتیب دیا جاتا.
مجھے یاد نہیں کہ زاہد بھائی صاحب کے در سے کوئی سوالی خالی ہاتھ گیا ہو،
وہ ایک بے انتہا مخلص اور ہمدرد انسان تھے.
زاہد بھائی کی ایک خواہش تھی وہ کہتے، شگفتہ صرف ایک کام کرو، دیوان عام چاہتا ہے کہ مالیگاؤں کی اعلٰی ظرف اور باحوصلہ خواتین کا پورا نمبر شائع ہو، میں چاہتا ہوں یہ انٹرویو تم ڈیزائن کرو
ہم لوگ اس سال اسی کام میں مصروف تھے، سماج میں بہترین کارہاۓ نمایاں انجام دینے والی خواتین پر گفت و شنید کے سلسلے دراز تھے، ایڈرس اور کانٹیکٹ انفو کلیکشن شروع تھے، وہ دس بار پوچھتے تمہیں اگر مناسب لگے تو ہی ان خاتون کا انٹرویو لو ورنہ تم خود سرچ کر لو کسی کو، میں نام جمع ہی کررہی تھی
اور درمیان میں یہ روح فرسا خبر نے مجھے کئی دنوں تک مغموم رکھا، جب حواس بحال ہوۓ تو احساس ہوا کہ *دنیاۓ صحافت کا ایک روشن ستارہ ماند ہوا اور کئی نگری بجھا گیا
ایک مرتبہ دو سال قبل بھیونڈی میں فی البدیہہ اساتذہ کا تقریری مقابلہ تھا، میں نے وہ پروگرام دیکھنے کی خواہش ظاہر کی اور ان سے کہا، زاہد بھائی میں وہ مقابلہ دیکھنا چاہتی ہوں، ایڈرس بھیجئے پلیز
میں جب بھیونڈی صمد ہائی اسکول میں مسابقہ دیکھنے پہنچی تو کسی کو بھی نہیں جانتی تھی، سب سے پیچھے کی سیٹ پر جا کرچپ چاپ بیٹھ گئی
اچانک
پروگرام شروع ہوتے ہی میرے نام کا باقاعدہ اناؤنسمنٹ ہوا، اور نہایت ہی احترام کے ساتھ میرا تعارف پیش کیا تھا،مجھے مہمان خاص کی سیٹ آفر کی گئی اور گل پیشی کے ساتھ ہی مہمان نوازی میں کوئی کسر نا چھوڑی گئی
اور بھیونڈی کی خواتین کے ساتھ بہت ہی اچھا وقت گزار کر بہت سی شفقتیں سمیٹ کر میں مالیگاؤں لوٹی،
مجھے پورا یقین تھا کہ اس کے پیچھے زاہد بھائی تھے، جب ان سے پوچھا تو کہا، شہر مالیگاؤں کی تم واحد قلم کار ہو جو سماج کے سلگتے مسائل پر لکھتی ہو شگفتہ، بیٹا تمہارا قلم چیختا ہے میں چاہتا ہوں تم لکھو اور لکھ لکھ کر سماج میں اپنا نام قائم کرو ، تمہاری طرح میرے شہر کی کوئی بچی کسی دوسرے شہر جاۓ تو میں چاہتا ہوں اس کے احترام میں کوئی کمی نا رہے
کبھی غریب بچوں کے کھانے کا انتظام کرتے
کبھی کسی کی اسکول فیس معاف کرواتے
جب میں پوچھتی بھیا، فلاں فلاں مقالہ نگار اچھا لکھ رہی ہیں
تو کہتے تم ایسے دس مقالےلکھ کر ردی کی ٹوکری میں ڈالتی ہو ، کچھ لوگ سماج میں منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوتے ہیں، لیکن سماج کو ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو اس کی دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھے بغیر اس کا حل فراہم کرے. سماج میں ہیرو پیدا نہیں ہوتے، وہ اپنی لگن سے ہیرو بنتے ہیں
زاہد بھائی صاحب، ایک ایسا صحافی تھا، جو والدین کا بے حد فرمانبردار، اولادوں کی آنکھوں کا تارا، بہنوں کا مان اور بیٹیوں کیلئے سایہ ء شفقت تھا وہیں دوستوں کیلئے ایک خوش مزاج شخص تھا
تیور تو ایسے تھے کہ جو کام کرنے کا بیڑہ اٹھایا جاتا اسے تکمیل تک پہنچایا جاتا.
کم عرصہ میں دیوان عام نے بڑی شہرت حاصل کی
وہ اردو ادب کے دلدادہ تھے لیکن مجھے ہمیشہ کہتے، مراٹھی کی جانب توجہ دو، مراٹھی سرکاری زبان ہے
مجھے افسوس ہے آپ کی زندگی میں آپ نے جو خواتین نمبر کی ذمہ داری مجھے سونپی تھی وہ میری مصروفیات کے سبب پایہء تکمیل تک نا پہنچ سکی
لیکن ان شاء اللہ، آپ کے اس خواب کو اختتامی پیراۓ تک ضرور پہنچایا جاۓ گا،آپ کا وصال صحافی طبقے کا ایک بڑا قیمتی خسارا ہے جس کی بھرپائی نا ممکن ہے.
دعاگو ہوں
اللہ رب العزت، برادر زاہد دیوان ( جنہیں مرحوم لکھتے قلم ساتھ نہیں دے رہا) کو جنت الفردوس کے اعلیٰ درجات سے سرفراز کرے
اور فرزندان کو ہمیشہ ان کے خوابوں اور نیک ارادوں کو پورا کرنے کی ہدایت و توفیق عطا فرماۓ، آمین
نذر زاہد بھائی صاحب
ہمارے بعد کوئی چاند
پھر نہ چمکے گا
ہمارے بعد کہیں روشنی نہیں ہوگی..
جلا سکو تو جلالو
اندھیری راتوں میں،
ہمارے بعد... چراغوں
کی لو بجھی ہوگی، ،
شگفتہ ہم سے سنورتی تھی کائنات ابھی
ہمارے بعد کی دنیا
بجھی بجھی ہوگی.....!

