10 ستمبر 2018 کی دوپہر تھی. پیر کا دن تھا. تلاوت قرآن میں منہمک تھا کہ دوست حافظ مغیرہ نے یہ روح فرسا خبر سنائی کہ وکیل صاحب کی طبیعت زیادہ علیل ہے. ہوش و حواس پر قابو رکھتے ہوئے جب موتی تالاب پہنچا تو پھر ہوش و حواس کھو بیٹھا. وکیل صاحب کی روح قفس عنصری سے پروز کرچکی تھی. اللہ نے انھیں 55 سال کی قلیل عمر عطا کی تھی . یوں بھی اچھے لوگوں کو اللہ پاک جلد ہی اپنے پاس بلا لیا کرتے ہیں. آج انھیں ہم سے جدا ہوئے پورے 4 سال مکمل ہوئے.
لیکن ان سے وابستہ یادیں آج بھی جوان ہیں. انتقال کے بعد شاید کوئی لمحہ یا کوئی دن ایسا نہیں گزرتا ہو کہ جب آپ کی یاد دل کو زخمی نہ کرتی ہو. مفاد پرستی کے اس دور میں اس فرشتہ صفت انسان کی بڑی یاد آتی ہے جس نے لوگوں کو فیض پہنچانے کو ہی اپنی زندگی سمجھ لیا تھا. گوناگوں صفت کے مالک اس انسان سے جو ایک بار ملاقات کرتا ان کا گرویدہ ہوجاتا تھا . جن لوگوں سے ان کے تعلقات تھے انھیں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وکیل صاحب سب سے زیادہ مجھ سے ہی قریب ہیں. آپ کے انتقال پر لاکھوں آنکھیں نمناک، لاکھوں دل غمزدہ ، سیکڑوں گھروں کا انتظام سنبھالنے والا ، بے سہاروں کا سہارا، مظلوموں کی طاقت، ظالم کے لیے سیسہ پلائی دیوار، عزم، ہمت، خلوص و حوصلہ کا پیکر، ایمانداری کا مظہر، جب اس دنیا سے رخصت ہوا تو سارا شہر مغموم رہا، حضرت قاری صلاح الدین سیفی کی اقتدا میں نماز جنازہ ادا کرنے کے لیے تاحد نظر انسانی سروں کا سیلاب نظر آیا جس نے اس بات کی گواہی دی کہ آپ لوگوں کے دلوں میں کس قدر عزیز تھے.
حج کے ایام تھے، مالیگاؤں کے عازمین مکہ و مدینہ میں مقیم تھے، انھیں جب معلوم ہوا تو اس پاک مٹی پر عازمین نے بھی دو رکعت نماز پڑھ کر تو کسی نے غلاف کعبہ کو تھام کر آپ کے لیے رورو کر دعائے مغفرت کی. جب بھی قبرستان جانا ہوتا ہے آپ کی قبر پر ہمیشہ نئے چہرے دیکھنے کو ملتے ہیں جو ہم نے اس سے پہلے نہیں دیکھے یقیناً وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ آپ نے اتنی خفیہ طریقے سے لوگوں کی مدد کی جسے سوائے خدا کے شاید کوئی نہ جانتا ہو. آج جب کہ شہر کے معاشرتی و کاروباری حالات نا گفتہ بہ ہیں، وکیل صاحب ہمیں آپ کی سرپرستی کی یاد بڑی ستاتی ہے. خصوصاً خوشی و غم کے موقع پر آپ کی غیر موجودگی ہمیں تڑپاتی ہے. مجلس نکاح میں ایجاب و قبول کے بعد شدت کے ساتھ جس چیز کی کمی میں نے محسوس کی وہ آپ کی شخصیت تھی.
جب آپ حیات تھے تو مشکل وقت بھی آسان لگتا تھا، آج جبکہ حالات سخت ہیں مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کوئی کاندھا ہو جس پر میں نے سر رکھ کر رویا ہو، وکیل صاحب مجھے اس کاندھے کی یاد آتی ہے جس پر میں سر رکھ کر رویا کرتا تھا. آپ نے مجھے ہمت دلائی،زندگی جینے کے گر سکھائے. ظلم کا مقابلہ کرنا سکھایا، سچائی پر جمے رہنا ، ایمانداری، محنت،اور جھوٹ سے شدید نفرت میں نے آپ سے سیکھی ہے، آپ حیات تھے تو میں نے بہت دل دکھایا لیکن مجھے یقین ہے کہ جب روز محشر ہماری ملاقات ہوگی تو آپ مجھ سے خوش ہوں گے.
آئندہ ہفتہ سب سے چھوٹی ہمشیرہ کا نکاح ہے، آپ کی غیر موجودگی پھر مجھے تڑپائے گی. وکیل صاحب! آپ کی سرپرستی کی بہت یاد آئے گی. اب آگے مزید لکھنے کی گنجائش باقی نہ رہی،ہاتھ کپکپا رہے ہیں، قلم نہیں چل رہی، آنکھوں سے آنسو ہیں کہ تھمتے نہیں .
آج ہمارے درمیان آپ موجود نہیں ہیں لیکن آپ سے وابستہ یادیں اور آپ کے ساتھ بتائے ہوئے لمحے مجھے بہت ستاتے ہیں. بس اللہ سے دعا ہے کہ اللہ آپ کی کروٹ کروٹ مغفرت فرمائے، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، آپ کی تمام خوبیاں و صفات ہم میں منتقل فرمائے. آپ کی غیر موجودگی میں اہل خانہ خصوصاً فرزندان کی ہر شر سے حفاظت فرمائے آمین ثم آمین.
آج اک اور برس بیت گیا اس کے بغیر
جس کے ہوتے ہوئے ہوتے تھے زمانے میرے

