گذشتہ دنوں دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوری کی سہ روزہ میٹنگ میں شرکت کے لیے مفتی اسماعیل قاسمی کے ہمراہ دیوبند کا سفر ہوا، اس وفد میں حافظ عبداللہ گائیڈ، فقیرمحمد بھی ساتھ تھے یہاں کی تاریخی شیخ الہند لائبریری میں وزٹ کا موقع ملا پیش ہے اس کی ایک رپورٹ ۔
کہتے ہیں کہ ہر دور میں لائبریریاں علم و فکر اور تعلیم وتعلم کا مظہر و مرکز رہی ہیں وہیں یہ بھی سچ ہیکہ کتابیں سفاہت سے معرفت، جہالت سے علم اور ظلمات سے نور کی طرف لے جاتی ہیں بلاشبہ کسی بھی قوم کوکسی بھی میدان میں عملی تجربات سے قبل نظریات اور اصول چاہئیں جن کی حفاظت و ترویج گاہیں لائبریریز ہیں،
جن کی اہمیت و افادیت کو مہذب قوموں اور تعلیم و تعلم سے جڑے افراد نے ہر دور میں تسلیم کیا ہے۔ سچ تو یہ ہیکہ اہل علم کسی ملک میں پائی جانے والی لائبریرز کو اس ملک کی ثقافتی تعلیمی اور صنعتی ترقی کا نہ صرف پیمانہ بلکہ قومی ورثہ قرار دیتے ہیں۔ بلکہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر کسی ملک کی ترقی کا جائزہ لینا ہوتو وہاں پر موجود تعلیمی اداروں کو دیکھا جائے اور تعلیمی اداروں کی ترقی کا جائزہ لینا ہوتو وہاں پر موجود لائبریرز کو دیکھا جائے دارالعلوم دیو بند ایک الہامی ادارہ ہے ہزاروں جو بائے علم یہاں سے پھوٹ رہے ہیں یہ سلا کل بھی جاری تھا آج بھی ہے اور ان شا اللہ صبح قیامت تک جاری رہے گا یہاں کی تاریخی لائبریری جوشیخ الہند مولانامحمودحسن دیوبندی کے نام معنون ہے ایک تاریخی لائبریری ہے۔
شیخ الہند مولانا محمود الحسن" کا تعارف دیوبند کی فکری اور علمی درس گاہ کے پہلے طالب علم کی حیثیت کرایا جاتا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ دیو بند کی مسجد چھتہ میں انار کے درخت کے زیر سایہ ۱۸۶۶ کے دوران قائم ہونے والی دینی و الہامی تاریخی مدرسے کے پہلے طالب علم تھے اور اس سبقت کا تاج سعادت آپ کے سر پر حسن و خوبی کے ساتھ جگمگا رہا ہےمگر کہنے والوں نے یہ بھی کہا کہ ہیکہ شیخ الہند کا اصل تعارف یہ ہےکہ وہ ان آہوں ، تمناؤں ، آرزوؤں، سحر خیز دعاؤں اور آنسوؤں کا ثمرہ طیبہ تھے جو ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد اس خطہ زمین میں دین اسلام اور ملت اسلامیہ کے مستقبل کے بارے میں پریشان و مضطرب ہزاروں کڑھتے جلتے دلوں اور جل تھل آنکھوں سے رواں دواں تھے۔ آپ کو تحریک ریشمی رومال کا قائد بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔
جنگ آزادی میں آپ کی اٹوٹ شرکت وقیادت سے انکار ممکن ہی نہیں۔
یہ ایک صنم خانہ ہے جہاں محمود بہت تیار ہوئے اس خاک کے ذرے ذرے سے کس درجہ شرر بیدار ہوئے بہر حال دیو بند ایک علمی، فکری اور سیاسی تحریک کا عنوان ہے اور اس عنوان کے ساتھ اگر کسی شخصیت کو ایک جامع اور مکمل علامت کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے تو وہ شیخ الہند مولانا محمود حسن کی ذات گرامی ہے۔
اور دیو بند کی تاریخی لائبریری آپ سے ہی منسوب ہے کوئی پانچ منزلہ اس عمارت اپنے آپ میں کی گوناگوں خوبی اور کمالات رکھتی ہے اس عمارت کو جدید دار حدیث بھی کہا جاتا ہے عمارت کے سب سے نیچے حصے جسے بیٹسمین بھی کہہ لیں بیک وقت ڈھائی ہزار طالبان علم قال الله و قال الرسول کی صدا بلند کرتے ہوئے زانوے تلمذ کرتے ہیں۔
یہاں بخاری و مسلم مشکوۃ جیسی احادیث کی کتابیں پڑھائی جاتی ہے تحقیق و تصنیف کا کام تو یہاں کے طالبان علم کی گٹیوں میں ہے ۔
کوئی بھی تعلیمی ادارہ ، لائبریری سے بے نیاز نہیں ہو سکتا ۔تعلیمی اداروں میں نصابی ضرورت محض نصابی کتابوں سے پوری نہیں ہوتی ۔ دیگر علمی وتحقیقی ضروریات کیے لیے اضافی کتابوں کا ہونا بھی ضروری ہے اس کے مدنظر یہاں ایک دو نہیں ہزاروں کتابیں تشنگان علم کی پیاس بجھارہی ہیں دنیا کی کوئی بھی ترقی یافتہ قوم لائبریری سے بے نیاز نہیں رہ سکتی ۔ لائبریری کی اہمیت و افادیت سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا ۔ خاص طور سے تعلیمی و تدریسی زندگی میں تولا ئبریری کی اہمیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔
اس کے بغیر تعلیمی سفر کو منزل سے ہم کنار نہیں کیا جا سکتا تعلیم کو عام کرنے کا جو راستہ تعلیمی اداروں سے نکلتا ہے ، وہ کتب خانوں میں آکر مل جاتا ہے اور ان دونوں کے باہمی تعاون سے ہی سماج و معاشرے میں علم کا اجالا پھیلتا ہے ۔
لائبریریاں علوم و فنون اور معلومات کے حصول کا بہترین ذریعہ ہیں اور شیخ الہند لائبریری بھی ان سب کا پر تو ہے کس . کس کا تذکرہ کروں۔ علم کے متوالوں کو یہاں ہر قسم کا علم بغیر کسی پابندی اور رکاوٹ کے مل گیا جاتا ہے اور ہر شخص آسانی سے بقدر ظرف استفادہ کرتا ہے۔
یہاں ہزاروں سالوں کا فکری وعلمی اثاثہ لاکھوں کروڑوں ارباب علم و دانش کی ذہنی اور قلمی کاوشوں کا ثمرہ اور حاصل ہے اپنے ماتھے کی آنکھ سے ہم نے دیکھا ہے۔
الہامی کتب، محدثین و مفسرین کی تفاسیر و شروحات کا مجموعہ محققین و مفکرین کی تحقیقات و افکار کا علمی خزانہ ، مصنفین و مترجمین کی کتب و تراجم ، انسانی تحریرات کا میں سرمایہ علوم و فنون کی دولت، شاعروں، نثر نگاروں ، ادیبوں اور خطیبوں کی قلمی فتوحات کا ذخیرہ یکجا ایک چھت کے نیچے ایک میسر ہائے میں نے پایا ہے کہ یہاں کی لائبریریوں میں داخل ہونے والا ہر طالب علم لاکھوں نابغہ روزگار صفحہ ہستی کے صفحہ ہستی کے شاہکار لوگوں سے بغل گیر اور ہم کلام ہوتا ہے اور ان کی فکری روشنی سے اپنے آپ کے جہان ذہن و قلب کو جگمگاتے پاتا ہے ماضی میں کچھ حد تک شیخ الہند لائبریری میں کچھ خدشات کے بادل منڈلاتے بھی دیکھے گئے مگر یہاں کے افراد کے خلوص کی برکت سے یہ بادل چھٹ گئے اور یہ علمی گہوارہ پوری اب و تاب سے چمک رہا ہے قران و حدیث کا فیضان عام کر رہا ہے یہاں درس و تدریس کا جو نظام اور انتظام ہے وہ اپنی مثال آپ ہے خوشنما، گول وسیع و عریض عمارت بنام شیخ الہند محمود الحسن دیوبندی لائبریری دیکھنے کے لائق ہے قریب ہی طالبان علم کی کلاسوں کی عمارت بھی ہے عقبی حصے میں مسجد رشید کی پر شکوہ عمارت ہے جس کی فن تعمیر کا کوئی ثانی نہیں۔






