تعلیم کی شمع روشن کرنے والا عہد ساز رہنما: مولانا ابوالکلام آزاد شیخ متین ابن شیخ نظیر (ریسرچ اسکالر سنت گاڑگے بابا امراوتی یونیورسٹی )
Author -
personحاجی شاھد انجم
نومبر 12, 2025
0
share
ہندوستان کی تحریک آزادی اور تعلیمی نشاۃ ثانیہ کی تاریخ میں مولانا ابوالکلام آزاد کا نام ایک درخشاں باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ 11 نومبر 1888ء کو مکہ مکرمہ میں پیدا ہونے والے یہ نابغہ روزگار ہندوستان کی آزادی کے بعد ملک کے پہلے وزیر تعلیم بنے اور انہوں نے تعلیم کے میدان میں ایسے انقلابی اقدامات کیے جنہوں نے آزاد ہندوستان کی تعلیمی بنیادوں کو مضبوط کیا۔ مولانا آزاد نہ صرف ایک عظیم مجاہد آزادی تھے بلکہ وہ ایک بلند پایہ عالم، مفکر، مصنف، صحافی اور تعلیمی ماہر بھی تھے۔ ان کی ساری زندگی تعلیم کی اشاعت اور ملک کی ترقی کے لیے وقف رہی۔
مولانا آزاد کا اصل نام محمود الحسن تھا اور ان کا قلمی نام ابوالکلام آزاد تھا۔ ان کے والد مولانا خیر الدین ایک معروف عالم دین تھے جو مکہ مکرمہ میں مقیم تھے۔ ان کی والدہ عربی النسل تھیں۔ یہ خاندانی ماحول ہی تھا جہاں انہیں ابتدائی تعلیم سے ہی علم و ادب سے گہرا شغف پیدا ہوا۔ مولانا آزاد کی تعلیمی زندگی کا آغاز روایتی دینی تعلیم سے ہوا۔ انہوں نے قرآن پاک حفظ کیا اور عربی، فارسی اور اردو زبانوں میں مہارت حاصل کی۔ بعد میں انہوں نے جدید علوم کی طرف رجحان کیا اور انگریزی، فلسفہ، تاریخ، سائنس اور ریاضی میں بھی دستگاہ حاصل کی۔ یہی وہ وقت تھا جب انہوں نے محسوس کیا کہ روایتی اور جدید تعلیم کا امتزاج ہی قوم کی ترقی کی کلید ہے۔ انہوں نے اپنی تعلیم کے بارے میں خود لکھا ہے:
"میں نے شروع سے ہی دو طرح کی تعلیم پر زور دیا - ایک وہ جو ہماری تہذیب و ثقافت کی حامل ہے، دوسری وہ جو جدید دور کی ضروریات پوری کرتی ہے۔" مولانا آزاد نے محسوس کیا کہ بغیر تعلیم کے آزادی کا حصول بے معنی ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ تعلیم یافتہ قوم ہی حقیقی آزادی کی حقدار ہو سکتی ہے۔ انہوں نے تحریک آزادی میں فعال کردار ادا کیا اور 1923 میں سب سے کم عمر میں انڈین نیشنل کانگریس کے صدر منتخب ہوئے۔ انہوں نے اپنی تقاریر اور تحریروں میں ہمیشہ زور دیا:
"سیاسی آزادی تو ایک مرحلہ ہے، حقیقی آزدی تو تعلیم سے آتی ہے۔ جب تک عوام تعلیم یافتہ نہیں ہوں گے، وہ اپنے حقوق کا صحیح استعمال نہیں کر سکیں گے۔" 1912 میں مولانا آزاد نے ہفتہ وار اخبار "الہلال" جاری کیا جو نہ صرف سیاسی بیداری کا ذریعہ بنا بلکہ تعلیمی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ الہلال کے ذریعے انہوں نے عوام میں تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کیا اور جدید تعلیم کے فروغ کی راہ ہموار کی۔ الہلال کے پہلے اداریے میں انہوں نے لکھا:
"ہماری جدوجہد کا مقصد صرف سیاسی آزادی حاصل کرنا نہیں ہے، بلکہ ہماری کوشش ہے کہ ہم اپنی قوم کو علم کی روشنی سے منور کریں۔" تحریک آزادی میں حصہ لینے کے باعث مولانا آزاد کو کئی بار جیل جانا پڑا۔ لیکن انہوں نے جیل کے اندر بھی تعلیم کے مشن کو جاری رکھا۔ انہوں نے جیل میں رہتے ہوئے متعدد کتابیں لکھیں اور اپنے ساتھی قیدیوں کو تعلیم دیتے رہے۔ رانچی جیل میں قید کے دوران انہوں نے اپنی مشہور کتاب "غبارِ خاطر" لکھی جس میں انہوں نے لکھا:
"قید کی چار دیواری نے مجھے اور زیادہ سوچنے پر مجبور کیا ہے۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ تعلیم ہی وہ کلید ہے جو ہر قفل کو کھول سکتی ہے۔" 15 اگست 1947 کو جب ہندوستان آزاد ہوا، تو پنڈت جواہر لال نہرو نے مولانا آزاد کو ملک کا پہلا وزیر تعلیم بنایا۔ اس وقت ملک کے سامنے سب سے بڑا چیلنج تعلیمی نظام کو ازسرنو مرتب کرنا تھا۔ مولانا آزاد نے اس ذمہ داری کو نہایت خوش اسلوبی سے نبھایا۔ اپنے پہلے بیان میں انہوں نے کہا:
"آج ہماری سب سے بڑی ترجیح تعلیم ہے۔ ہمیں ایسا تعلیمی نظام تعمیر کرنا ہے جو ہمارے ماضی کے علوم کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کر سکے۔" مولانا آزاد نے اپنے دور وزارت میں تعلیم کے شعبے میں متعدد انقلابی اقدامات کیے: پہلی تعلیمی کانفرنس (1948): انہوں نے ملک بھر کے تعلیمی ماہرین کو جمع کیا اور ہندوستان کی پہلی جامع تعلیمی پالیسی مرتب کی۔
ان کی کوششوں سے 1956ء میں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن(UGC) قائم ہوا جس نے ملک میں اعلیٰ تعلیم کے معیار کو مستحکم کیا۔
انہوں نے تکنیکی تعلیم کے فروغ پر زور دیا اور انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (IITs) اور انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ (IIMs) جیسے اداروں کی بنیاد رکھی۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس (IISc) کو مزید وسعت دی اور نئے سائنسی تحقیقی مراکز قائم کیے۔
ساہتیہ اکیڈمی، لالیت کلا اکیڈمی اور سنگیت ناٹک اکیڈمی جیسے ثقافتی ادارے انہی کی دین ہیں۔ مولانا آزاد کا تعلیمی فلسفہ نہایت وسیع اور ہمہ گیر تھا۔ وہ تعلیم کو محض ڈگریوں کا حصول نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان کے نزدیک تعلیم کا مقصد انسان کی مکمل شخصیت کی تعمیر تھا۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں بارہا زور دیا:
"تعلیم کا مقصد صرف ڈاکٹر، انجینئر یا وکیل پیدا کرنا نہیں ہے۔ تعلیم کا مقصد اچھے انسان پیدا کرنا ہے، ایسے شہری تیار کرنا ہیں جو ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔" وہ کہتے تھے:
"حقیقی تعلیم وہ ہے جو انسان کو محض معلومات نہ دے، بلکہ اس کی شخصیت کی تعمیر کرے، اس کے ذہن کو کھولے اور اسے زندگی کے مسائل کا حل سوچنے کے قابل بنائے۔" مولانا آزاد تعلیم میں مساوات کے سخت حامی تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ملک کا ہر بچہ، چاہے وہ کسی بھی مذہب، ذات یا طبقے سے تعلق رکھتا ہو، تعلیم کے یکساں مواقع حاصل کر سکے۔ انہوں نے ایک تقریر میں کہا:
"تعلیم کوئی امیروں کی جاگیر نہیں ہے۔ یہ ہر ہندوستانی کا بنیادی حق ہے۔ ہمیں ایسا نظام تعمیر کرنا ہے جہاں غریب سے غریب ترین بچہ بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکے۔" انہوں نے خواتین کی تعلیم پر خصوصی زور دیا اور کہا:
"جس قوم کی خواتین تعلیم یافتہ نہیں ہوں گی، وہ قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی۔" مولانا آزاد جدید علوم بالخصوص سائنس اور ٹیکنالوجی کی اہمیت سے بخوبی واقف تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ہندوستان جدید سائنسی ایجادات میں دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلے۔ ان کا مشہور قول ہے:
"ہمیں اپنے نوجوانوں میں سائنٹفک مزاج پیدا کرنا ہوگا، کیونکہ یہی دور جدید کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ ہمیں ایسے سائنس دان تیار کرنے ہیں جو نہ صرف ملک کی ضروریات پوری کر سکیں بلکہ دنیا میں ہندوستان کا نام روشن کر سکیں۔" مولانا آزاد سمجھتے تھے کہ تعلیم ہی وہ ذریعہ ہے جو ملک کے مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کر سکتی ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ تعلیمی نظام ایسا ہو جو تمام مذاہب کے لوگوں کو یکجا کر سکے۔ انہوں نے کہا:
"ہمارا تعلیمی نظام ایسا ہونا چاہیے جو ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی سب کو ایک پلیٹ فارم پر لے آئے۔ ہمیں اپنے بچوں کو یہ سکھانا ہے کہ ہم سب سے پہلے ہندوستانی ہیں۔" مولانا آزاد محض ایک سیاستدان یا وزیر نہیں تھے، بلکہ وہ ایک بلند پایہ ادیب اور مفکر بھی تھے۔ ان کی تصنیف "غبارِ خاطر" خطوط کا ایک ایسا مجموعہ ہے جس میں فلسفہ، ادب اور سیاست کے گہرے نقوش ملتے ہیں۔ ان کی دوسری اہم کتاب "انڈیا ونس فریڈم" ہے جو تحریک آزادی پر ایک مستند دستاویز ہے۔ وہ کہتے تھے:
"ادب انسان کی داخلی آواز ہے، جو اسے خود شناسی کی طرف لے جاتی ہے۔" مولانا آزاد کو 1992 میں بعد از مرگ ملک کے سب سے بڑے شہری اعزاز بھارت رتن سے نوازا گیا ۔ *ہندوستان میں ہر سال 11 نومبر کو مولانا آزاد کے یوم پیدائش کو یوم تعلیم کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ حکومت ہند کا ایک ایسا فیصلہ تھا جس نے ان کی تعلیمی خدمات کو دائمی حیثیت دے دی۔* اس موقع پر ہر سال ملک بھر میں تعلیمی تقریبات، سیمینارز اور مذاکرے منعقد ہوتے ہیں جہاں مولانا آزاد کے تعلیمی فلسفے پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔ مولانا آزاد کی ذاتی زندگی نہایت سادہ تھی۔ وہ ہمیشہ سادہ لباس پہنتے تھے اور سادہ زندگی گزارتے تھے۔ ان کی شادی زلیخا بیگم سے ہوئی تھی جنہوں نے ہر قدم پر ان کا ساتھ دیا۔ ان کی سادگی کے بارے میں مشہور ہے کہ ایک بار وہ رات گئے تک کام کر رہے تھے۔ ان کی اہلیہ نے کہا: "آرام کیجیے، صحت کا خیال رکھیے۔" تو انہوں نے جواب دیا: "جب تک ہندوستان کا ہر بچہ تعلیم یافتہ نہیں ہو جاتا، مجھے آرام کیسے آ سکتا ہے؟" 22 فروری 1958 کو دل کا دورہ پڑنے سے مولانا آزاد کا انتقال ہو گیا۔ لیکن وہ اپنے پیچھے تعلیم کی ایک شاندار میراث چھوڑ گئے۔ آج ہندوستان میں ہم جو تعلیمی ادارے دیکھ رہے ہیں، ان میں سے بیشتر انہی کی کوششوں کا نتیجہ ہیں۔ ان کی آخری خواہش تھی:
"میں چاہتا ہوں کہ میری قبر کے پاس سے جب کوئی طالب علم گزرے تو وہ یہ دعا ضرور کرے: اللہ تعالیٰ مولانا آزاد کی محنتوں کو قبول فرمائے۔" آج جب ہندوستان ترقی کی نئی منزلیں طے کر رہا ہے، مولانا آزاد کے افکار اور خیالات پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہو گئے ہیں۔ جدید تعلیمی پالیسی (NEP) 2020 درحقیقت مولانا آزاد کے تعلیمی وژن کا ہی توسیعی روپ ہے۔ مولانا آزاد کا یہ قول آج بھی اتنے ہی متعلقہ ہے:
"تعلیم کا مقصد صرف ڈگریاں دینا نہیں، بلکہ ایسے ذہن تیار کرنا ہے جو قوم کی رہنمائی کر سکیں۔" مولانا آزاد کے خوابوں کے مطابق آج ہندوستان میں
آئی آئی ٹی اور آئی آئی ایم جیسے ادارے عالمی سطح پر شناخت رکھتے ہیں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن ملک میں اعلیٰ تعلیم کے معیار کو برقرار رکھے ہوئے ہے سائنسی تحقیقی ادارے نئی بلندیاں چھو رہے ہیں دیہی علاقوں میں تعلیم کی روشنی پھیل رہی ہے مولانا آزاد نوجوانوں کو ملک کی ترقی کا اہم ذریعہ سمجھتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ نوجوان تعلیم حاصل کریں اور ملک کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کریں۔ انہوں نے نوجوانوں سے کہا تھا:
"اے نوجوانو! تم ہی ملک کا مستقبل ہو۔ تمہارے کندھوں پر ملک کی ترقی کی ذمہ داری ہے۔ تعلیم حاصل کرو، محنت کرو، اور ملک کا نام روشن کرو۔"
مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت علم و عمل کا حسین امتزاج تھی۔ وہ نہ صرف تعلیم کی شمع روشن کرنے والے تھے بلکہ خود ایک مشعل راہ تھے۔ انہوں نے ہمیں یہ سبق دیا کہ تعلیم ہی وہ طاقتور ہتھیار ہے جس سے نہ صرف انسان کی ذاتی نجات ممکن ہے بلکہ قومیں بھی ترقی کی بلندیوں کو چھو سکتی ہیں۔ ان کی زندگی کا یہ فلسفہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے:
"تعلیم ہی وہ روشنی ہے جو اندھیرے کو مٹا سکتی ہے۔ تعلیم ہی وہ طاقت ہے جو قوموں کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ تعلیم ہی وہ ہتھیار ہے جو ہر جنگ جیت سکتا ہے۔" یوم تعلیم پر آئیے، ہم عہد کریں کہ اس عہد ساز رہنما کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔ ہم اپنے بچوں کو تعلیم دیں گے، ملک میں تعلیم کے فروغ کے لیے کام کریں گے، اور مولانا آزاد کے وژن کو آگے بڑھائیں گے۔