از : مفتی محمد عامر یاسین ملی
امام وخطیب مسجد یحی زبیر
9028393682
گھر آکے بہت روئے ماں باپ اکیلے میں
ماں باپ کی جانب سے بچوں کو کھلونا دلانے کی روایت بہت پرانی ہے ۔ان دنوں شہر بھر میں کھلونوں کی بھرمار ہے، سرپرست حضرات اور والدین بچوں کی ضد کے آگے مجبور ہو کر ان کو کھلونے دلانا ضروری سمجھتے ہیں، لیکن اس بات کی فکر نہیں کرتے کہ بچے ان کھلونوں کا غلط استعمال نہ کریں اور کھلونوں کی وجہ سے ان کا مزاج نہ بگڑے ۔
بالی ووڈ اور ہالی ووڈ فلموں کا اثر ہے کہ معصوم بچے کھلونوں میں بندوق لینا پسند کرتے ہیں، اور پھر اس میں موتی اور چھرے بھر کر فلمی انداز میں ایک دوسرے کو نشانہ بناتے ہیں، اور آزادانہ ایک دوسرے پر گولیاں برساتے ہیں، اس طرح کے مناظر آج کل گلی محلوں میں جابجا نظر آرہے ہیں ۔ گزشتہ دنوں ایک ستر سالہ بزرگ کو کسی بچے نے بندوق سے نشانہ بنایا، موتی تیز رفتاری کے ساتھ سیدھا ان کے سینے پر جاکر لگا، وہ دل کے مریض ہیں، اگر موتی براہ راست دل پر لگتا تو بڑے نقصان کا اندیشہ تھا،یہی موتی بچوں اور راہ گیروں کی آنکھ اور دیگر نازک جگہوں پر بھی لگ کر ان کو بڑے نقصان سے دوچار کرسکتا ہے ۔
جس سے زندگی بھر بینائی سے محرومی بھی ہوسکتی ہے ۔ مزید ایک دوسرے پر حملہ آور ہونے اور زیر کرنے کا یہ کھیل بچوں کے مزاج حصہ بنے گا تو لازما ان میں تحمل اور برداشت کا مادہ ختم ہو جائے گا، جس کی روک تھام کے لئے والدین کو اپنا کردار نبھانا ہوگا ۔ گزارش ہے کہ والدین اپنے بچوں کو اس طرح کے نقصان دہ کھلونے نہ دلائیں۔ کوشش کریں کہ ان کو کھانے پینے کی مقوی غذائیں کھلائیں اور علمی تحفہ دیں جو ان کے لئے دینی و دنیاوی لحاظ سے مفید ثابت ہو ۔ اچھی چیزوں کے ذریعے بچوں کے اندر مثبت رجحان اور سوچ پیدا کریں اور ان کو نفسیاتی نقصان سے بچائیں۔