ہم آبادی میں نظر دوڑائیں اور بنظرِ عمیق جائزہ لیں تو نو عمر بچّوں میں زنا کا رجحان بڑھ رہا ہے۔جس کی وجہ سے بعض مرتبہ شادی شدہ مرد و خواتین کی ازدواجی زندگی میں بھی تلخیاں واقع ہورہی ہیں اور نوبت طلاق تک پہنچ جارہی ہے۔اِس سلسلے میں ہم اور آپ جب تک اسلامی نکتہ نظر سے اپنے گھریلو اور معاشرہ کے حالات کا جائزہ نہیں لیں گے تب تک اِن جیسی رسوا کردینے والی برائیوں پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔سب سے پہلے تو سرپرست حضرات حالاتِ زمانہ کو مدّ نظر رکھیں اور بالغ ہوتے ہوئے بچّوں کی نفسیات کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ ہمارے بچّے بالغ ہورہے ہیں تو اُن کی نفسیات اور خواہشات کا کیا حال ہے۔
کیوں کہ اِس دور میں ہر طرف نفسِ انسانی کو ابھارنے اور ہیجان دلانے والے مناظر،عریانیت و فحاشیت کی حیا سوز تصاویر جگہ جگہ پر آویزاں نیز ایسے ہیجان انگیز مناظر انٹرنیٹ کے ذریعہ سے دعوت مشاہدہ دے رہے ہیں جن کی وجہ سے بچّے بہت جلد پختہ ذہن ہوکر نفسانی خواہشات کو کنٹرول نہ کرتے ہوئے زنا کے مرتکب ہورہے ہیں۔ایسی صورت میں ہمیں فرامینِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے راہِ نجات لینا ہوگی۔جس عمر میں بچّے غلط حرکات کررہے ہیں وہ عمر اُن کے سیکھنے کی ہے اور اِس عمر میں بچّے بہت جلد کسی بھی بات کو اپنے ذہن کے خاکے میں محفوظ کرکے وہی عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب بچّے دس سال کے ہوجائیں تو والدین ان کا بستر الگ کردیں۔(سنن ابو داود) ذیل میں کچھ مشورے حل کے طور پر پیش کیے جارہے ہیں۔
١)جن بچّوں سے متعلق اسلام کہتا ہے کہ بچپن میں ماں اپنی چھاتی سے لگا کر دودھ پلائے،گودی میں کھیلائے اور باپ اُس کو انگلی پکڑ کر چلنا سکھائے،کاندھے پر بٹھائے اُنہیں بچّوں سے متعلق اسلام کہتا ہے کہ دس سال کی عمر میں والدین سونے کے وقت میں اُن کے بستر سے الگ کرنے کا حکم دے رہا ہے کہ باپ بالغ بیٹی سے ماں بالغ بیٹے سے اور بھائی بہن دونوں ایک دوسرے سے جدا ہوکر سوئیں۔
میاں بیوی کو بچّوں کے بستر کو الگ کرنے کی تاکید اِس لیے کی گئی کہ شوہر و بیوی کے بیچ ہونے والی گفتگو کو نہ سن سکیں اور ازدواجی زندگی میں میاں بیوی کے درمیان ہونے والی مخصوص حرکات و سکنات سے ان کے اندر کوئی غیر اخلاقی اثر پیدا نہ ہو۔
جب ماں جیسی پاکیزہ ہستی اور باپ جیسی مقدس شخصیت کے حوالے سے اتنا پابند کیا گیا تو پھر والدین کو دیکھنا چاہئے کہ اُن کا بچّہ یا بچّی کی صحبت کن لوگوں کے ساتھ ہے۔بچّے بری صحبت کی وجہ سے بگڑ رہے ہیں اور دوستوں کے سرکل سے ملنے والی انٹرنیٹ کی لٙت سے غلط راہ پر چل پڑے ہیں۔
٢)زمانہ کی نیرنگیوں کو دیکھتے ہوئے نکاح کے بعد ممکن ہوسکے تو سرپرست حضرات نٙو بیاہتا جوڑوں کی علیحدہ سکونت کا فوری بندوبست کریں۔شاید اِس کو ہمارے معاشرہ میں عیب کی نگاہ سے دیکھا جائے لیکن یہ اسلامی تعلیمات کے بالکل بھی خلاف نہیں ہے۔اصحابِ رسول اور اسلاف کی زندگی کا مطالعہ کریں تو یہ بات ضرور ملے گی کہ وہ جب اپنی اولاد کا نکاح کردیتے تو علیحدہ ان کی رہائش کے لیے انتظام بھی فرمادیتے۔جس کی وجہ سے اُن پاکیزہ ادوار میں ایسی قبیح حرکات کا ہونا ناممکن نظر آتا تھا۔
٣)سرپرست حضرات علیحدہ مکان بناکر نہیں دے سکتے تو کم از کم گھروں کو کشادہ ضرور بنائیں کیوں کہ ایسے معاملات کا ہونا ان جگہوں پر ممکنات میں سے ہے جہاں رہائش کے لیے تنگ جگہ ہو۔نئی دلہن سے گھر کے نوجوان بچّے دیور بھاوج سے،نوجوان بھتیجہ چچی وغیرہ سے آتے جاتے ہنسی مذاق کرتے اورساتھ ہی دھکا مُکّی کے معاملات بڑھتے بڑھتے حد کو پار کرجاتے ہیں۔
۴)اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ نوجوان شادی سے پہلے رات دیر گئے تک دوستوں کے ساتھ گپ شپ کرنے،وائی فائی والی ہوٹلوں پر بیٹھ کر موبائل پر وقت گزاری کرنے یا پھر دوستوں کے ساتھ موبائل پر لوڈو کھیلنے یا بلا وجہ تضیع اوقات کے عادی ہوتے ہیں اِسی لیے شادی کے بعد بھی اُن کی یہی روش قائم رہتی ہے حالانکہ نکاح کے بعد لڑکے کو رات کسی اور جگہ گزارنے کی قطعی ضرورت نہیں۔نکاح کے بعد بھی رات کو تاخیر سے آنے کی عادت ہے تو نتائج بھیانک نکل کر ہی سامنے آئیں گے اور سامنے آہی رہے ہیں۔اِس لیے جن نوجوانوں کا نکاح ہوگیا ہو وہ رات جلد اپنے گھر آنے کی عادت بنائیں۔
بلکہ اِس سلسلے میں تو سرپرست حضرات کو چاہئے کہ جب بچّوں کا نکاح ہوجائے تو اُن کو رات میں جلد آنے کے لیے وقت کا پابند کردیں تاخیر سے آنے پر سرزنش ضرور کریں۔کیوں کہ نٙو بیاہتا دلہن رات اپنے شوہر کے ساتھ بسر کرنا چاہتی ہے اُسے رات کے سکون بھرے لمحات میں شوہر کی تنہائی اور قربت درکار ہوتی ہے اور قربت کے لیے قدرت کی طرف سے رات ہی کا انتخاب یہ کہہ کر کیا گیا"اور ہم نے رات کو تمہارے لیے لباس کیا"اِس لیے شوہر و بیوی کے درمیان جو معاملات رات میں ہوتے ہیں اور جس قدر رات میں سکون ملتا ہے دن کے اجالے میں اُس سکون کا ملنا ناممکن بات ہے۔
۵)بہت سے نوجوان شادی سے پہلے ضرورتا رات میں کام کرتے ہیں ایسے نوجوانوں کو نکاح کے بعد کچھ سالوں یا کچھ ماہ کے لیے رات ڈیوٹی کو لازمی طور پر ختم کردینا چاہئے اور دن میں کام تلاش کرکے ازدواجی زندگی کو خوشحال بنانے پر توجہ دینا چاہئے۔نکاح کے بعد رات بیوی اگر کمرے میں تنہا ہے تو ایسے میں شیطانی وسوسات کی وجہ سے نفس کا بہکنا یقینی امر ہے۔مزید جو لوگ باہر نوکریاں کرتے ہیں وہ بھی بہت لمبے عرصے تک بیوی سے علیحدہ نہ رہیں وقتا فوقتا گھر آئیں تاکہ بیوی کی خواہشات کی تکمیل ہوسکے۔بلکہ اِس سلسلے میں گھر کے سرپرست حضرات کو چاہئے کہ وہ نئے جوڑے کے لیے از خود ایسا ماحول ترتیب دیں کہ لڑکا رات میں اپنی بیوی کے پاس وقت دے سکے۔یہ باتیں جو پیش کی گئی ہیں ایسا نہیں کہ ہر جگہ ایسا ہوتا ہے کچھ ناخوشگوار واقعات کی وجہ سے آگاہی کے طور پر یہ باتیں درج کی گئیں۔مزیدجو حل پیش کیے گئے ہیں اس سے حتمی طور پر نتیجہ نکل کر سامنے آئے ایسا نہیں ہے بلکہ ایسا کرتے ہیں تو شاید معاملات درست ہوسکیں۔