یومِ آزادی اور مسلم مجاہدینِ آزادی کا سنہری کردار ترتیب:- پٹھان شریف خان 9422409471
Author -
personحاجی شاھد انجم
اگست 15, 2025
0
share
آزادی کے یہ خوش رنگ پھول اُن جانبازوں کے مقدس لہو سے سینچے گئے جنہوں نے اپنے جان و مال، عزت و آرام حتیٰ کہ اپنی زندگی تک قربان کر کے غلامی کی زنجیروں کو توڑ ڈالا۔ برطانوی سامراج کے سیاہ دور میں جب ظلم و جبر کے بادل چھائے ہوئے تھے اور ہندوستان کی فضاؤں میں مایوسی پھیلی ہوئی تھی، تب یہ مردانِ حُر میدانِ عمل میں اُترے۔ کسی نے تلوار سے جہاد کیا، کسی نے قلم سے قوم کو بیدار کیا، کسی نے جلاوطنی کا عذاب سہہ کر آزادی کا پرچم بلند رکھا، اور کسی نے پھانسی کے پھندے کو گلے کا زیوربنایاہندوستان کی آزادی کی جدوجہد میں مسلم مجاہدین کا کردار تاریخ کا ایک سنہری اور تابناک باب ہے، جس کی روشنی آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ یومِ آزادی کے موقع پر ان عظیم سپوتوں کو یاد کرنا نہ صرف ہماری قومی ذمہ داری ہے بلکہ ایمان اور حب الوطنی کا تقاضا بھی ہے، تاکہ ہمارے نوجوان نسلیں اُن کی قربانیوں سے سبق حاصل کریں اور ان کے ولولے اور ایثار کی روشنی میں اپنے کردار کو سنواریں۔ یہ یاد دہانی ہی وہ چراغ ہے جو ہماری قومی غیرت، اتحاد اور آزادی کے جذبات کو ہمیشہ فروزاں رکھے گی۔ 1. *حضرت ٹیپو سلطان* (1751–1799)
میسور کے شیر کہلائے جانے والے ٹیپو سلطان 20 نومبر 1751ء کو دیونہلی، کرناٹک میں پیدا ہوئے۔انہوں نے برطانوی استعمار کے خلاف بے مثال جنگ لڑی اور اپنی سرزمین ک غلامی سے بچانے کی بھرپور کوشش کی۔ان کا جدید اسلحہ سازی اور فوجی نظم و ضبط میں کردار تاریخ میں نمایاں ہے۔1799ء میں سرنگاپٹم کی جنگ میں بہادری سے لڑتے ہوئے شہادت پائی۔ان کی قربانی آج بھی آزادی کے پروانوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ 2. *مولانا فضل حق خیرآبادی* (1797–1861)
مولانا فضل حق خیرآبادی 1797ء میں خیرآباد، اتر پردیش میں پیدا ہوئے۔1857ء کی جنگِ آزادی میں انہوں نے جہاد کا تاریخی فتویٰ جاری کر کے مسلمانوں کو انگریزوں کے خلاف ابھارا۔وہ نہ صرف ایک عالمِ دین بلکہ ایک جری انقلابی رہنما بھی تھے۔
انگریزوں نے انہیں پکڑ کر کالا پانی کی جلاوطنی کی سزا دی۔1861ء میں جلاوطنی ہی میں وفات پائی، لیکن ان کا فتویٰ آزادی کی تحریک کا سنگِ بنیاد ثابت ہوا۔
3.*بیگم حضرت محل* (1820–1879)
بیگم حضرت محل 1820ء میں فیض آباد، اودھ میں پیدا ہوئیں۔
اودھ کی بیگم حضرت محل نے 1857ء میں لکھنؤ میں انگریزوں کے خلاف قیادت کی۔
انہوں نے اپنی حکمتِ عملی اور حوصلے سے عوام کو بغاوت کے لیے منظم کیا۔انگریزوں کے سخت حملوں کے باوجود میدان چھوڑنے سے انکار کیا۔جلاوطنی کے باوجود اپنی جدوجہد جاری رکھی اور نیپال میں وفات پائی۔ 4. *مولوی احمد اللہ شاہ* (1810–1858)
مولوی احمد اللہ شاہ 1810ء میں فیض آباد، اودھ میں پیدا ہوئے۔
اودھ اور جھانسی میں برطانوی فوج کے خلاف مسلح جدوجہد کے قائد تھے۔ان کی شجاعت اور حکمتِ عملی نے انہیں "مجاہدِ اول" کا لقب دلایا۔انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ کئی اہم فتوحات حاصل کیں۔
1858ء میں گرفتار ہو کر شہادت پائی۔ 5. *بہادر شاہ ظفر* (1775–1862)
آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر 24 اکتوبر 1775ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔وہ 1857ء کی جنگِ آزادی کے علامتی رہنما تھے۔جنگ میں شکست کے بعد انگریزوں نے انہیں رنگون جلاوطن کر دیا۔جلاوطنی میں ان پر سخت پہرہ اور کربناک حالات مسلط کیے گئے۔
وہ 1862ء میں جلاوطنی میں ہی وفات پا گئے۔ 6. *مولانا محمود الحسن دیوبندی* (1851–1920)
مولانا محمود الحسن 1851ء میں بریلی، اتر پردیش میں پیدا ہوئے۔
شیخ الہند کے لقب سے مشہور، ریشمی رومال تحریک کے بانی تھے۔
انگریزوں نے انہیں گرفتار کر کے مالٹا کی جیل میں قید رکھا۔قید کی صعوبتوں کے باوجود ان کا حوصلہ ٹوٹا نہیں۔
1920ء میں رہائی کے بعد بھی آزادی کی جدوجہد جاری رکھی۔ 7. *مولانا برکت اللہ بھوپالی* (1854–1927)
مولانا برکت اللہ 7 جولائی 1854ء کو بھوپال، مدھیہ پردیش میں پیدا ہوئے۔وہ جلاوطنی حکومتِ ہند کے پہلے وزیر اعظم مقرر ہوئے۔انہوں نے جاپان، امریکہ اور جرمنی میں برطانوی استعمار کے خلاف آواز بلند کی۔
ان کا مقصد عالمی سطح پر ہندوستان کی آزادی کی حمایت حاصل کرنا تھا۔ان کی خدمات آج بھی بیرونِ ملک تحریکِ آزادی کی بنیاد سمجھی جاتی ہیں۔ 8. *مولانا عبید اللہ سندھی* (1872–1944)
مولانا عبید اللہ سندھی 10 مارچ 1872ء کو چینیوٹ، پنجاب میں پیدا ہوئے۔انہوں نے افغانستان، روس اور ترکی جا کر آزادی کے لیے بین الاقوامی حمایت حاصل کی۔جمعیت علمائے ہند کے پلیٹ فارم سے برطانوی استعمار کے خلاف جدوجہد کی۔
کئی سال جلاوطنی میں گزارے۔ان کی خدمات عالمی سطح پر برصغیر کی آزادی کے لیے اہم رہیں۔ 9. *مولانا سید حسین احمد مدنی* (1879–1957)
مولانا سید حسین احمد مدنی 19 اکتوبر 1879ء کو بنگلور، کرناٹک میں پیدا ہوئے۔وہ جمعیت علمائے ہند کے صدر اور شیخ الاسلام کہلائے۔
انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کو فروغ دے کر آزادی کی تحریک مضبوط کی۔قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں مگر موقف پر قائم رہے۔انہوں نے زندگی بھر آزادی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے کام کیا۔ 10. *مولانا محمد علی جوہر* (1878–1931)
مولانا محمد علی جوہر 10 دسمبر 1878ء کو رام پور، اتر پردیش میں پیدا ہوئے۔وہ خلافت تحریک کے مرکزی رہنما اور ممتاز صحافی تھے۔
انہوں نے قوم کو بیدار کرنے کے لیے اخبارات جاری کیے۔انگریزوں نے انہیں کئی بار قید کیا لیکن وہ ڈٹے رہے۔1931ء میں لندن میں گول میز کانفرنس کے دوران وفات پائی۔ 11. *ڈاکٹر سیف الدین کچلو* (1888–1963)
ڈاکٹر سیف الدین کچلو 15 جنوری 1888ء کو امرتسر، پنجاب میں پیدا ہوئے۔سانحہ جلیانوالہ باغ کے بعد تحریک عدم تعاون کے رہنما بنے۔انہوں نے انگریزوں کے خلاف عوامی بیداری پیدا کی۔
کئی بار گرفتار ہوئے لیکن تحریک سے پیچھے نہ ہٹے۔وہ زندگی بھر قومی یکجہتی اور خودمختاری کے لیے سرگرم رہے۔ 12. *بی اماں* (1852–1924)
بی اماں، جن کا اصل نام آبادی بانو تھا، 1852ء میں اتر پردیش کے قصبہ بدایوں میں پیدا ہوئیں۔
وہ مولانا محمد علی جوہر اور شوکت علی کی والدہ اور تحریک خلافت کی سرگرم کارکن تھیں۔
انہوں نے خواتین کو آزادی کی جدوجہد میں شامل کرنے کے لیے منظم کیا۔1917ء میں کلکتہ کے بڑے جلسے میں ان کی ولولہ انگیز تقریر نے ہزاروں افراد کو تحریک میں شامل کیا۔1924ء میں وفات پائی لیکن ان کی قربانیاں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ 13. *شہید اشفاق اللہ خان* (1900–1927)
اشفاق اللہ خان 22 اکتوبر 1900ء کو شہر شاہجہان پور، اتر پردیش میں پیدا ہوئے۔وہ کاکوری تحریک کے ایک جری مجاہد اور حریت پسند تھے۔انہوں نے انگریزوں کے خزانے پر قبضہ کر کے ان کی طاقت کو چیلنج کیا۔گرفتاری کے بعد بھی ندامت کے بجائے فخر کا اظہار کیا۔1927ء میں پھانسی کے پھندے پر جھول گئے۔ 14. *خان عبدالغفار خان* (1890–1988)
خان عبدالغفار خان 6 فروری 1890ء کو اتمانزئی، ضلع چارسدہ، خیبر پختونخوا میں پیدا ہوئے۔سرحدی گاندھی کے لقب سے مشہور، عدمتشدد کے فلسفے کے قائل تھے۔انہوں نے خدائی خدمت گارتحریک کے ذریعے پختون عوام کو منظم کیا۔انگریزوں کے خلاف کئی بار گرفتار ہوئے۔آزادی کے بعد بھی وہ امن و انصاف کے لیے سرگرم رہے۔ 15. *مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی* (1901–1962)
مولانا حفظ الرحمن 1901ء میں سیوہار، اتر پردیش میں پیدا ہوئے۔
تحریک خلافت اور تحریک عدم تعاون کے سرگرم رہنما تھے۔انہوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔
جمعیت علمائے ہند کے پلیٹ فارم سے آزادی کے لیے کام کیا۔وہ آزادی کے بعد بھی قومی یکجہتی کے حامی رہے۔
یہ وہ چند نمایاں نام ہیں جنہوں نے آزادی کی شمع روشن کی، ورنہ اس کے علاوہ سیکڑوں مسلم مجاہدینِ آزادی نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے، جن کے تذکرے تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف سے لکھے گئے ہیں۔ نئی نسل کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان قربانیوں کو یاد رکھے، تاکہ ہمارے دلوں میں حب الوطنی اور ایثار کا چراغ ہمیشہ روشن رہے۔