دنیا کی زندگی ابتلا و آزمائش کا نام ہے ، یہاں ہر روز کا سورج تقریبا ہر ایک کے لئے ایک نئی آزمائش کا پیغام لے کر طلوع ہوتا ہے ، ہر انسان ہر روز کسی نہ کسی چھوٹے بڑے حادثہ کا شکار ہوتا رہتا ہے ، اسی لیے احادیث میں ایسی دعائیں ملتی ہیں جن میں اللہ پاک سے حادثات اور مختلف طرح کے نقصانات سے تحفظ کی التجا کی گئی ہے، کیونکہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہی ہمارا ہر جگہ اور ہر وقت محافظ اور نگہبان ہے ۔
گزشتہ روز ظہر کی نماز کے لیے دفتر ( واقع خانقاہ رحمانیہ بسم اللہ باغ) سے نکلا، وقت کی تنگی کے پیش نظر سواری کی رفتار زیادہ تھی، جعفر نگر کی نو تعمیر شدہ روڈ کے اختتام پر ( اہلحدیث مسجد کے قریب) بارش کا پانی جمع تھا، جس کی وجہ سے روڈ بھی گیلی ہوگئی تھی ، وہاں پر بریک لگاتے ہی اچانک میری بائک سلپ ہوگئی اور پھر سواری یہاں تو سوار وہاں !!!
اللہ پاک کا شکر ہے کہ کسی بڑے حادثہ اور نقصان سے میں سواری سمیت محفوظ رہا، چونکہ ظہر کی جماعت کا وقت ہورہا تھا اور مسجد پہنچنے کی فکر سوار تھی ، اس دھن میں پتہ ہی نہیں چلا کہ موبائل بھی جیب سے گرگیا ہے ، شکر ہے کہ کچھ ہی دور جاکر احساس ہوا کہ موبائل جیب میں نہیں ہے، اب پھر بعجلت تمام لوٹ کر اسی جگہ آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ موبائل موجود نہیں ہے ، اسی دوران ایک سائیکل سوار نوجوان نے پوچھا : مولانا موبائل تلاش کررہے ہو ؟ ہاں ہاں ! ابھی اسی جگہ گرا تھا۔ (میں نے جواب دیا ۔)
نوجوان نے راستے سے گزر رہی ایک خاتون کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے یہاں سے ایک موبائل اٹھایا ہے ۔ میں بلا کسی تاخیر کے خاتون کے پاس پہنچا تو انہوں نے فوری طور پر موبائل مجھے دیدیا اور بتایا کہ میں نے موبائل ہاتھ ہی میں رکھا ہے، تاکہ اگر موبائل والے شخص کا فون آئے تو اس کو خبر کرسکوں ۔
میں نے اس خاتون کا دلی شکریہ ادا کیا اور دعا بھی دی اور شکر الہی کے جذبات سے لبریز دل کے ساتھ دربار الہی( مسجد) کی جانب روانہ ہوگیا۔ مسجد پہونچا تو نماز شروع ہوچکی تھی ، بہرحال فرض و سنت کے بعد دو رکعت شکرانہ کی نیت سے ادا کی اور پھر کافی دیرتک ذہن میں یہ پوراحادثہ گردش کرتا رہا ۔کبھی یہ سوچتا کہ اللہ پاک نے کسی بڑے حادثہ سے بچالیا تو کبھی یہ خیال آتا کہ یہ بھی اللہ کا کرم ہے کہ سواری کے محفوظ رہنے کے ساتھ ساتھ میرا قیمتی موبائل بھی واپس مل گیا ۔ اسی کے ساتھ اس نوجوان اور خاتون کا بھی خیال آیا کہ دونوں نے امانت داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے راستے میں ملی ہوئی چیز کو اس کے اصل مالک تک پہونچانے کی کوشش کی ۔
قارئین ! موجودہ دور میں جب کہ لوگ علی الاعلان ایک دوسرے کا حق مارنے کی کوشش کر رہے ہیں بلکہ ایک دوسرے کی ملکیت ہڑپ کر جارہے ہیں ، سیکیورٹی کے جدید آلات ( کیمرہ وغیرہ) کے باوجود چوری اور ڈکیتی بالکل عام بات ہوچکی ہے، روزانہ نہ جانے کتنے موبائل اور سواریاں چوری ہوجاتی ہیں، جن کا بعد میں پتہ بھی نہیں لگتا، ایسے ماحول میں راہ چلتے ہوئے کسی نامعلوم انسان کا کوئی سامان اٹھا کر بحفاظت رکھنا اور پھر اس کے اصل مالک تک پہونچانے کی کوشش کرنا یقینا قابل تعریف عمل ہے اور اللہ پاک کے یہاں ایسا کرنے والا مستحق اجر بھی! میں نہیں جانتا کہ وہ نوجوان کون تھا اور وہ خاتون کون تھی ، لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ ان دونوں کا شمار ایسے مسلمانوں میں ہوتا ہے جو سچے اور امانت دار ہوتے ہیں، جو ناجائز طریقے پر کسی کا مال لے لینا درست نہیں سمجھتے ۔ دیکھا جائے تو ایک مسلمان کی یہی تو پہچان ہے کہ وہ سچا بھی ہو اور امانت دار بھی ، اس لئے کہ وہ اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی ہے جسے مخالفین اور دشمن بھی صادق و امین کہہ کر مخاطب کرتے تھے اور جس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : سچائی ایسا عمل ہے جو نیکی کی راہ پر چلاتا ہے اور نیکی والا راستہ سیدھا جنت جاتا ہے اور بے شک آدمی سچ بولتا رہتا ہے بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ’’ صدیق‘‘ بن جاتا ہے۔( مسلم) دوسری حدیث میں ہے: اس شخص کا ایمان مکمل نہیں جس میں امانت ودیانتداری کی صفت نہیں۔(بیہقی)
قارئین! آج کسی درجے میں نماز روزہ ، زکوٰۃ و صدقہ، حج و قربانی اور ذکر و تلاوت کا اہتمام کرنے والے مسلمان تو ہمیں مل جائیں گے لیکن مذکورہ احادیث کی روشنی میں اگر ایسے مسلمان کو ہم تلاش کرنے نکلیں جو سچا، امانت دار اور وعدہ کا پاسدار ہو تو ہمیں بڑی حد تک مایوسی ہوگی ۔ اس لئے کہ مذکورہ صفات اور خوبیاں اب نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہیں۔ اب ایسے افراد خال خال ہی نظر آتے ہیں ۔ بہرحال میرے ساتھ جو حادثہ پیش آیا ، اس کے ذریعے کسی حد تک دل کو تسلی ہوئی اور مذکورہ نوجوان اور خاتون کی شرافت، سچائی اور امانت داری کا مشاہدہ کرنے کے بعد نہاں خانہ دل سے یہ آواز آئی ۔
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں
اللہ پاک ہمیں بھی مذکورہ اچھی صفات کا خوگر بنائے۔ آمین
مضمون کے اختتام پر راستے میں گری پڑی ہوئی چیز کو اٹھانے کے سلسلے میں ایک شرعی مسئلہ بھی پڑھ لیجئے:
سوال:(۱) اگر ہم راستے میں گری ہوئی چیز یا پیسہ پاتے ہیں تو اس کو کیا کرنا پڑے گا؟ اس کی پوری تفصیل دیں ۔ (۲) اور اگر جس کا ہے اس کا پتہ ہی نہ چلے تو کیا کرنا ہوگا؟
جواب: اگر پڑی ہوئی چیز بہت معمولی ہو، جس کے بارے میں اندازہو کہ مالک اسے تلاش نہ کرے گا (مثلا کوئی بسکٹ کا ٹکڑا، کاپی کا کوئی ورق،چند دانے چنے وغیرہ) تو اسے اٹھا کر خود استعمال کرنے کی گنجائش ہے، اگر وہ چیز کسی قدر قیمتی ہے، جس کے بارے میں یہ اندازہ ہو کہ مالک اسے تلاش کرے گا تو اسے اٹھا کر ممکنہ ذرائع (مثلا کسی اجتماع کے موقع پر اعلان دے کر، اخبارات میں اشتہار وغیرہ دے کر) مالک کو تلاش کرکے اس تک پہنچانے کی کوشش کی جائے،اگر مالک تک رسائی ہوجاتی ہے تو مالک کو وہ چیز دے دی جائے ، اگر مالک کا پتہ نہ چلے اور یہ امید ہوچلے کہ مالک تک رسائی نہیں ہو سکتی تو مالک کی طرف سے کسی غریب پر وہ چیز صدقہ کردی جائے؛ البتہ یہ بات واضح رہے کہ اگر بعد میں کبھی مالک آجائے اورصدقہ کو تسلیم نہ کرے؛ بلکہ اپنی چیز واپس مانگے تو اسے وہ چیز یا اس کا بدل دینا پڑے گا ، ایسی صورت میں صدقے کا ثواب اس شخص کو ملے گا جس نے غریب کو دی تھی ، اصل مالک جس نے صدقہ کو تسلیم نہیں کیا اسے ثواب نہیں ملے گا۔واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،دارالعلوم دیوبند
نوٹ : بعض لوگ گری پڑی چیزوں کو خدائے پاک کی مدد اور اپنا حق سمجھ کر اٹھالیتے ہیں اور بے جھجھک ان کا استعمال شروع کردیتے ہیں، جب کہ حدیث شریف کے مطابق کم از ایک سال تک اس کا اعلان کرنا چاہئے، اس کے بعد صدقہ کردینا چاہیے ۔اگر گری پڑی چیز کو اٹھانے والا زکوٰۃ کا مستحق ہو ، یعنی صاحب نصاب نہ ہو،تو وہ خود بھی یہ چیز رکھ سکتا ہے، اسی طرح گری پڑی چیز کا صدقہ کرنا واجب ہے، لہٰذا اس کا مصرف مساجد نہیں ہیں۔ اسی طرح اگر اٹھانے والا صاحب نصاب ہے تو خود اس کے لئے اس چیز کا استعمال بالکل درست نہیں ہے۔