سنی اجتماع کے آخری دن ہزاروں دل اللہ کی طرف پلٹ آئے ’’نفع بخش بنو،نفع خورنہ بنو‘‘:مولاناشاکرنوری کاپیغام، بغدادشریف کےموجودہ سجادہ نشین کی پرسوزدعاؤں کے ساتھ اجتماع ختم ہوا
Author -
personحاجی شاھد انجم
دسمبر 14, 2025
0
share
ممبئی (پریس ریلیز):آخری دن کے اجتماع کاآغازصبح صادق کےطلوع کے ساتھ ہی ہوگیاتھااورپھراس کے بعد فکری،دینی اور تعلیمی سرگرمیوں کاسلسلہ شروع ہوگیا۔ صبح ساڑھے دس بجے سے ساڑھے بارہ بجے تک کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات کے لیے خصوصی کیریئر گائیڈنس پروگرام منعقد کیا گیا، جس میں نوجوانوں کو مستقبل کی منصوبہ بندی کے ساتھ اخلاقی بنیادوں پر آگے بڑھنے کی تلقین کی گئی۔بعد نمازِ ظہر ختمِ بخاری شریف کی روح پرور محفل منعقد ہوئی، جس کی قیادت مفتی محمد نظام الدین رضوی نے کی۔ اس موقع پر حدیثِ نبوی ﷺ کی عظمت اور دینی ورثے کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی۔اس کے بعد فارغینِ مدارس کی دستار بندی کی تقریب منعقد ہوئی، جس میں نوجوان علما کو دین کی خدمت کی ذمہ داری یاد دلائی گئی۔ یہ منظر حاضرین کے لیے جذباتی اور حوصلہ افزا ثابت ہوا۔ سنی دعوت اسلامی کے سرپرست عالمی شہرت یافتہ عالم دین وخطیب مولاناقمرالزماں اعظمی مصباحی نے ’’اسلام کانظام محبت واخوت ‘‘کے عنوان پربڑاہی خوب صورت خطاب فرمایا۔انہوںنے اس سلسلے میں پیغمبراسلام کی سیرت کے مختلف گوشے سامعین کے سامنے رکھےاوران سے انسانیت کی ترقی کے ایسے عمدہ نکات برآمدکیے کہ ہزاروں سامعین کامجمع عش عش کراٹھا۔انہوںنے کہاکہ اسلام کایہی نظام محبت تھاکہ بہت کم مدت میں اسلام دنیاکے مختلف براعظموںمیں پھیل گیا تھا۔ علامہ اعظمی نے کہاکہ اسلام کے اسی نظام کوحضورکے تربیت یافتہ صحابہ نے دنیاکے کونے کونے تک پہنچایااورلوگوں کے دلوں کوفتح کرلیا۔انہوںنے کہاکہ اگراسلام کایہ نظام محبت واخوت نہ ہوتاتواسلام کبھی دنیامیں نہ پھیلتا۔ علامہ اعظمی نے واضح کیاکہ آج جگہ جگہ نفرتیں پھیل رہی ہیں ،نفرتوں کے سوداگرنفرتوں کابازارلگارہے ہیں۔ انہوں نے متنبہ کیاکہ اس طرح سے دنیاکبھی ترقی نہ کرسکے گی ۔انہوںنے تاریخ کی روشنی میں بتایاکہ دنیامیں اسی معاشرے ،اسی تہذیب اوراسی ملک نے ترقی کی ہے جہاں لوگ محبتوں کی زبان بولتے ہیں ،انسانیت سے رہتے ہیں اورامن وامان کوقائم رہتے ہیں ۔ علامہ اعظمی نے اپنے خطاب کے اخیرمیں پیغام دیاکہ نفرتوں کے اس ماحول میں مسلمانوں کی ذمہ داری سب سے زیادہ بڑھ جاتی ہےکیوں کہ مسلمان ایک ایسے نبی کے امتی ہیں جوپیغامبرمحبت ہےجو پیغامبرامن ہے ۔علامہ کے خطاب کے دوران پورامجمع ساکت و جامدب یٹھا رہا، ایسالگ رہاتھاکہ علامہ کے ہرہرلفظ کووہ اپنے دلوںمیں اتارلیناچاہتاہو۔ امیرسنی دعوت اسلامی مولانامحمدشاکرنوری نے آج کے اجتماع میں ’’انسانیت ‘‘کوموضوع گفتگوبنایا۔ اس عنوان پربڑاہی رقت آمیز،جذباتی اوربصیرت افروزخطاب کیا۔انہوںنے حدیث نبوی کی روشنی میں بتایاکہ لوگوںمیں سب سے بہتروہ ہوتاہے جولوگوں کونفع پہنچاتاہے۔امیرسنی دعوت اسلامی نے کہاکہ جولوگ نفع بخش نہیں ہوتے انہیں اسلام پسندنہیں کرتابلکہ انہیں دنیابھی پسندنہیں کرتی ۔معروف صوفی بزرگ حضرت احنف بن قیس کے حوالے سے مولانانوری نے کہاکہ کسی نے ان سے انسانیت کے بارے میں پوچھاتوانہوںنے تین اہم باتیں بتائیں۔انہوں نے بتایاکہ دولت مندی کے باوجود تواضع اختیار کرنا، قدرت ہونے کے باوجود معاف کردینا اور احسان کیے بغیر عطا کرنا۔ امیرسنی دعوت اسلامی نے اس حوالے سے اپنے تجربات ،مشاہدات اورمعلومات کی روشنی میںبڑے دل نشیں اندازمیں سامعین کوبتایاکہ آج کاانسان بے قراراس لیے ہے کہ اس نے لوگوں کونفع پہنچاناچھوڑدیاہے اوروہ اپنے مفادات کاپجاری بن گیاہے۔ ایک اہم بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مولانانے بتایاکہ جب تک لوگوں کی ضرورت نہیں بنوگے تب تک لوگ تمہاری عزت نہیں کریں گے۔اس بات کوانہوں نے مثال سے سمجھاتے ہوئے کہاکہ سوئی جیسی معمولی چیزکوبھی محفوظ مقام پر رکھا جاتا ہے اور قیمتی سے قیمتی چیز اگر نفع بخش نہ ہوتو اسے باہر پھینک دیاجاتاہے۔ امیر سنی دعوت اسلامی نے اس حوالے بہت اہم اورنفع بخش نکات سامعین کوبتائے اورپیغام دیاکہ اس کے ذریعے انسان نہ صرف خود کو بلکہ پوری سوسائٹی کوفائدہ پہنچاسکتا ہے۔ اخیرمیں انہوں نے انسانیت کے نفع اوراچھاانسان اوراچھامسلمان بننے کے لیے کئی اہم مشورے بھی دیے۔انہوںنے کہاکہ دن میں ایک مرتبہ اپنے دل کی عدالت میں ضرور جھانکو،دل کوخوش رکھوچاہے اپناہویاکسی اورکا،مصیبت میںہوش اورخوشی میں جوش پر قابو رکھو، بڑاآدمی وہی ہے جواپنے پاس بیٹھنے والے کو چھوٹا محسوس نہ ہونے دے۔ امیرسنی دعوت اسلامی کے اس پیغام کولوگوںنے بصدشوق وانہماک سے سماعت کیا۔ عصرکے بعدسوال جواب کے سیشن میں جامعہ اشرفیہ مبارک پورسے تشریف لائے مفتی محمدنظام الدین نے کئی اہم سوالات کے جوابات دیے ۔ایک سوال ہوا کہ مسجدکے بغل میں مسجدکی ہی ایک ایک جگہ ہے جس میں مدرسہ قائم کیا گیا اور وہاں بجلی لائٹ وغیرہ مسجد سے ہی لی اوراس جگہ کو پارکنگ کے لیے استعمال کیا تو کیا اس کا کرایہ وغیرہ لیاجا سکتا ہےیانہیں ؟ اس کے جواب میں مفتی صاحب نے فرمایا کہ جب سے اس جگہ پرقبضہ کیاگیا ہے تب سے اس جگہ کاکرایہ ،پانی بجلی کابل اور پارکنگ کی اجرت لی جاسکتی ہے۔نابینالوگوںکے لیے لکھے گئے قرآن کے بارے میں مفتی صاحب نے بتایاکہ بریل (جس پرعلامتی زبان میںقرآن پاک لکھاجاتاہے)پرمرتب کیاگیاقرآن ،قرآن ہی ہے ۔ مفتی صاحب نے بتایا کہ وارثوں کے لیےوصیت کرناجائزنہیں اگرمرنے والے نے وصیت کربھی دی توبھی یہ وصیت نافذنہیں ہوگی اگرچہ دوسرے وارثین اس کے لیے راضی بھی ہوں ۔ ہاں اگرمرنے کے بعداگروارثین وصیت کرنے والے کے حق میں وارثین راضی ہوں توپھراس وصیت پرعمل کیاجاسکتاہے۔اس سلسلے میں مفتی صاحب نے ایک اہم اصول بتایاکہ اولادمیں اگرکوئی بہت زیادہ مفلس بھی ہوتوبھی وصیت کرناجائزنہیں ہوگاہاں اگرمرنے والے نے مرنے سے پہلے اسے کچھ ہبہ کردیااوراس پرقبضہ بھی کرادیاتوپھریہ جائزہوگا۔ اس کے علاوہ نماز،بینکنگ اوروراثت کے متعلق کئی پیچیدہ سوالات کے جوابات دیے ۔ اجتماع کے آخری دن کے خطابات میں علما نے انسان کی گم ہوتی انسانیت، نوجوان نسل کی اخلاقی تربیت، آرٹیفیشیل انٹلی جنس کے دور میں اسلامی اقدار کی اہمیت، اور صبر و توکل کو کامیاب زندگی کا زینہ قرار دیا۔الحاد وبے دینی کے متعلق خوبصورت مکالمہ ہوا جس میں ملحدین کی طرف سے کیے جانے والے کئی اعتراضات کے جوابات نجمی علما نے دیئے۔اختتام پر اجتماعی دعا میں آزاد میدان اشک بار آنکھوں اور سسکیوں کی آوازوں سے گونج اٹھا۔ لاکھوں افراد نے اپنے گناہوں کی معافی اور امت کی فلاح کے لیے اللہ کے حضور ہاتھ اٹھائے، یوں یہ اجتماع روحانی اثرات کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ آج ایک بین الاقوامی شخصیت بغدادشریف کے موجودہ سجادہ نشین شیخ خالدالجیلانی مدظلہ العالی نے بھی بطورخاص شرکت کی اوراپنی دعاؤں اورکلمات خیرسے نوازا۔