تحریر......جمیل اختر شفیق
قرطاس وقلم اور فن کاروں کی قسطوں میں پذیرائی کے حوالے سے اردو ڈاٹرکٹوریٹ حکومتِ بہار کا ایک فعال ادارہ ہے سالوں قبل اس کی کیا کارکردگی رہی ہے مجھے نہیں معلوم تاہم نیتش سرکار نے موجودہ ڈائرکٹر سے قبل جب امتیاز احمد کریمی کو اُس عہدے پہ بحال کیا تو ایک نئ ہلچل پیدا ہوئ،یوں محسوس ہوا جیسے انقلاب کا ایک نیا سورج طلوع ہوچکا ہے، بہت سارے گمنام اور غیر معروف شعراء وادبا کو اپنے وجود کا احساس دلایا گیا ،درجنوں شخصیات کی مخلتف مواقع پر عزت افزائی کی گئ،درجنوں باوقار علمی و ادبی محفلیں آراستہ کی گئیں، ان سرگرمیوں سے پہلی بار نئ نسل کی اردو آبادی کو اپنی زبان کی طاقت اور افتخار کا اندازہ ہوا،ڈھیروں بجھے ہوئے چہروں کو تبسّم کا ہنر آگیا اور اردو ڈائرکٹوریٹ کی خدمات کی بازگشت ملک ہی نہیں بلکہ بیرون ممالک تک شدت سے سنی گئ، لیکن کریمی صاحب کے جانے کے بعد حالیہ ڈائرکٹر محترم کی افعال وکردار سے امیدوں کی وہ لو دھیرے دھیرے مدھم ہونے لگی ہے، سارے سنہرے خوابوں کے دیئے رفتہ رفتہ بجھنے لگے ہیں ،بالخصوص رواں سال میں اردو ڈائرکٹوریٹ کی جانب سے مسودوں پہ تعاون کا اشتہار پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اہالیانِ ادب کی غیرت کے امتحان کا ایک نیا کھیل شروع ہوچکا ہے-
حالیہ اشتہار میں بقیہ وہی ساری شرطیں ہیں جو ماضی میں بھی پڑھنے کو ملتی رہی ہیں تاہم اس بار تین ایسی شرطوں کا اضافہ کیا گیا ہے جنہیں پڑھ کر جو لوگ اس کے اہل ہوں گی وہ بھی عزتِ نفس کے تحفظ کے احساس سے اپنے مسودے جمع کرنے کی ہمت نہیں جُٹا پائیں گے، اعلان کے مطابق کسی بھی سرکاری ادارے سے وابستہ صاحبِ قلم یا پھر ایسا شخص جس کی فیملی کی کُل آمدنی 8 لاکھ سے زیادہ ہوگی یا ایسا شخص جس کے خاندان کے کسی ایک فرد نے اگر مسودہ جمع کیا ہے تو اسی خاندان کا دوسرا فرد مثلاً شوہر،بیوی ،بیٹا یا بیٹی کے قلم سے نکلی ہوئ کاوشیں پہ مشتمل الگ الگ مسودے ایک ساتھ جمع نہیں کیے جاسکیں گے -
اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
میری اپنی معلومات کے مطابق ملک بھر میں اہلِ قلم کو مسودوں پہ جتنے بھی ادارے تعاون فراہم کرتے ہیں شاید کہیں بھی شرائط کی یہ نظیر دیکھنے کو نہیں ملے گی، کیونکہ جن لوگوں کا رشتہ کاغذ اور قلم سے ہوتا ہے وہ اس بات کو شدت سے محسوس کرتے ہیں کہ تخلیق کار چاہے جس زبان کا ہو وہ بنیادی طور بہت حساس اور نازک جذبوں کا مالک انسان ہوتا ہے،وہ اپنی تخلیقات کو جان سے زیادہ عزیز تر سمجھتا ہے ،وہ اپنی توہین برداشت کرلے گا لیکن اپنی تخلیقات پہ ایک حرفِ ذلت برداشت نہیں کرسکتا، وہ بھوکا رہنا گوارہ کرے گا لیکن کسی کے سامنے دستِ سوال دراز نہیں کرے گا، اسی لیے اس طرح کی نازک نفسیات کا بہتر علم اسی شخص کو ہوسکتا ہے جو خود اس میدان کا کھلاڑی ہوگا، جسے یہ پتہ ہوگا کہ فکر کی گہرائ کو فصاحت وبلاغت کا پیرہن عطا کرنے کے لیے کتنی ریاضت اور کن ذہنی کٹھنائیوں کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے-
ہم قلم والوں کوکمزورنہ سمجھو کیونکہ
تیر کا کام قلم سے بھی لیا جاتا ہے
میں پچھلے 14 سالوں سے مستقل قلم کی مزدوری کر رہا ہوں، ملک وبیرونِ ممالک کی درجنوں علمی،ادبی، سیاسی وسماجی شخصیات سے ملاقاتیں رہیں،باتیں رہیں، لیکن میں نہیں جانتا تھا کہ احمد محمود صاحب کون ہیں؟ پہلی بار ان کا نام اُس وقت سنا جب وہ اردو ڈائرکٹوریٹ جیسے فعال ادارے کے ڈائرکٹر بنائے گئے، تعارف میں ایک مستند حوالہ یہ بھی سامنے آیا کہ وہ پروفیسر عبدالمغنی مرحوم کے فرزند ہیں، اردو یا قومی وملی حوالے سے خود ذاتی طور پر ان کی کیا کردگی رہی ہے؟ مجھے نہیں پتہ، پھر بھی خاندانی پسِ منظر قابلِ رشک تھا اسی لیے خوش فہمیوں کا چراغ آنکھوں میں دیر تک روشن رہا لیکن گزرتے دنوں کے ساتھ وہ سارے توقعات کے محل ایک ایک کرکے منہدم ہونے لگے بقیہ رہی سہی کسر زیرِ نظر ان کی جانب سے مسودوں پہ تعاون کے اعلان نے پوری کردی-
جلنا پڑتا ہے بہت فکر کے شعلوں میں شفیق
شخصیتیں یونہی نہیں اونچی ہوا کرتی ہیں
مجھے ایسا لگتا ہے بدقسمتی سے ڈائرکٹر محترم نے ادباء و شعراء کے مسودوں پہ دی جانے والی رقم کو اُس عینک سے دیکھنا شروع کردیا ہے جو حکومت کی جانب سے غریبوں کو ان کی مفلسی پہ ترس کھاکر اندراآواس وغیرہ کے روپ میں دی جاتی ہے ،اضافہ کی گئ تین شرطیں دراصل اسی ذہنیت کی شرمناک مثال ہے جو افسرانہ رعونت کے بطن سے جنم لیتی ہے ورنہ اس حد تک غیر اخلاقی شرطوں کا اضافہ بلکل نہیں کیا جاتا، ان ساری شرطوں کا پاس رکھ کر مسودہ جمع کرانے کی جراءت میرے خیال سے کم از کم ایک صاحبِ ظرف انسان تو قطعی نہیں کرسکتا، ہرصاحبِ قلم کو اس بات کا علم ہے کہ ملکی یا صوبائ سطح پر جن اداروں کی جانب سے مالی تعاون پیش کیے جاتے ہیں ان میں چاہے جتنی جتنی کفایت شعاری سے کام لیا جائے انصاف کی بات یہ ہے کہ وہ کتابوں کی اشاعت کے اعتبار سے ناکافی ثابت ہوتے ہیں، اس کے علاوہ شایانِ شان رسمِ اجراء وغیرہ کی تقریبات قدآور شخصیات کی ضیافت کا اہتمام کے اخراجات وغیرہ کے بھی کچھ الگ اخلاقی تقاضے ہیں پھر بھی لوگ حسبِ دستور اپنے مسودے جمع کراتے ہیں سبب یہ ہے کہ ان کے دل میں رقم کے حصول سے زیادہ ادارے کی نسبت اور حوالے کی تڑپ ہوتی ہے،کیونکہ منطق کا ایک اصول ہے کہ نسبت سے شی ممتاز ہوجاتی ہے، لوگ یہ جانتے ہیں کہ جمع کیے جانے والے مسودے ماہرینِ علم وفن کی نظر سے گزرتے ہیں، رقم کی گئ ایک ایک عبارت کو بڑی باریکی سے چھان پھٹک کر سندِ اعتبار بخشا جاتا ہے ورنہ جس ملک میں ایک غریب سے غریب انسان اپنی جھوٹی نمائش پہ لاکھوں رقم خرچ کردیتا ہے کیا وہ اس بات کی صلاحیت نہیں رکھتا کہ خونِ جگر سے رقم کی گئ تخلیقی کاوشوں کو زیورِ طبع سے آراستہ کرسکے؟ رہی بات کسی کی غربت پہ ترس کھاکر مالی تعاون کی تو شاید ایسے لوگ آٹے میں نمک کے برابر ہوں گے خود میرا اپنا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ کئ غیر سرکاری تنظیمیں متعدد بار میری کتابوں کی تکمیلِ اشاعت کی ذمہ داری کا آفر پیش کرتی رہی ہیں لیکن میں نے ہربار انکار کیا کیونکہ دیگر اہلِ قلم کی طرح مجھے بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کی طرف سے منظور شدہ اداروں کی مُہر کتابوں کے وقار کو بڑھاتی ہے ،یہی سبب ہے کہ جہاں ان سرکاری اداروں میں معمولی تنخواہ پہ گزارا کرنے والے اہلِ قلم اپنا مسودہ جمع کرنے کے لیے بےچین رہتے ہیں وہیں بڑے بڑے پروفیسران اور افسران بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں رہتے -
ملک بھر میں لگ بھگ جو بھی اس طرح کے ادارے ہیں دراصل ان کا مقصد قلمکاروں کو تعاون دینا نہیں بلکہ عزت افزائی ہوتا ہے ،یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ایک صاحبِ قلم جو کسی بھی سماج کا قیمتی اثاثہ ہوتا ہے، جسے لوگ اپنے عہدوں اور قد کی بلندی سے اوپر اٹھ کر سر آنکھوں پہ بٹھاتے ہیں وہ اپنی قلمی کاوشوں کی منظوری پہ معمولی رقم کی حصولیابی کے لیے اپنی فیملی کی آمدنی کا ریکارڈ جمع کرے، بینک کے چکر کاٹے،افسران کی آفس کا دروازہ کھٹکھٹائے ، فرض کرلیجیے اگر حسنِ اتفاق ایک ہی گھر میں دو لوگوں کا مسودہ تیار ہے تو ایک ہی جمع کرے گا نا؟ گویا دوسرا تین سال تک اپنی باری کے آنے کا صبر آزما مرحلہ طے کرے مطلب نتیجہ آئینے کی طرح صاف ہے کہ دو لوگوں کے بیچ مفت میں اختلاف کی ایک نئ بنیاد پڑجائے گی ،کیونکہ یہ ایک فطری بات ہے کہ اگر دو لوگوں میں کسی ایک کا مسودہ جمع کرنے کی شرط ہے تو دونوں یہ چاہے گا سامنے والے کو یہ شرف حاصل ہونے کے بجائے مجھے ہوجائے، اس تناظر میں اگر سنجیدگی سے غور کریں اس طرح کی بچکانہ شرطیں کسی بھی علمی ادارے کے وقار کو پست کرنے کے لیے کافی ثابت ہوسکتی ہیں-
قوتِ فکر وعمل پہلے فنا ہوتی ہے
تب کسی قوم کی شوکت پہ زوال آتا ہے
ہونا تو یہ چاہیے کہ اردو ڈائرکٹوریٹ کی پچھلی روشن کارکردگی کے پیشِ نظر حکومت کے سامنے مزید رقم میں اضافہ کرنے اور سرکاری وغیر سرکاری عملہ کی شرطوں سے اوپر اٹھ کر محض ادباء وشعراء کی عزت افزائی کے لیے اسباب ڈھونڈے جاتے اور اہلِ علم کے مابین ادب نوازی کا اعلا ثبوت پیش کیا جاتا تو ڈائرکٹوریٹ کی ترقی کے امکانات بڑھتے اور ڈائرکٹر محترم کے اس عمل کو وقت کا مؤرخ سنہرے حروف میں سپردِ قلم کرتا کیونکہ تاریخ کے ہر عہد میں اِن ہی قلم کے غازیوں نے کسی بھی شخص کو شخصیت کے آکاش پہ پہونچایا ہے، ورنہ حالات دیکھ گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والے خوشامد پسند لوگ کا کیا ہے ایک ڈھونڈیے ہر موڑ پہ ہزار مل جائیں گے، حکومت کے ہر اعلا عہدے پہ فائز شخص کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ محض شرطوں اور قوانین کی سختی سے اگر کوئ ادارہ ترقی کرتا یا شخصیتیں بلند سمجھی جاتیں تو ملکِ عزیز پہ اب تک انگریز قابض ہوتے -
ہے محبت میں وہ طاقت کہ بنے سنگ بھی موم
حسنِ اخلاق سے کافر کو مسلماں کردے