از قلم افضال انصاری
9890141758
ابتداۓ آفرینش سے لے کر آج تک کسی بھی مخلوق کو موت سے انکار کرتے نہیں پایا گیا۔یہ ایک ایسی مسلّمہ حقیقت ہے جس کا اعتراف ہر ذی روح کرتا ہی ہے ۔ہر موت رشتہ داروں کو ،دوست احباب گلی محلہ والوں کو اور دور و نزدیک کے شناساؤں کو صدمہ ضرور دیتی ہے ۔یہ صدمے اپنے اندر کچھ درجات رکھتے ہیں ۔عہد طفلی کی موت اتنا نہیں رلاتی ۔
نہ ہی عمر کی آخری منزل پر پہنچ کر آنے والی موت اپنے اندر وہ صدمے رکھتی ہے۔لیکن عہد جوانی کی موت دل پر گھونسا ضرور لگاتی دیتی ہے۔ایک ایسی عمر میں جب انسان اپنے اہل و عیال اقرباء اور رشتہ داروں کے لئے رزق حلال کے لیے کوشش کرتا رہتا ہے ۔اپنے معصوم بچوں کے لیے نئے نئے منصوبے بناتا رہتا ہے ۔اس کی رگوں میں دوڑتا ہوا گرم خون اسے حالات کا مقابلہ کرتے رہنے کے لیے متحرک رکھتا ہے ۔
وہ ذہنی جسمانی عقلی غرض ہر طرح کے چھوٹے سے بڑے معاملے کو سلجھانے کی صلاحیت کو بروئے کار لاکر خوش آئند مستقبل کے لیے اپنی راہیں بناتا جاتا ہے ۔ایسے عالم میں اگر فرشتۂ موت اسے اپنے پاس بلا لیتا ہے تو یہ صدمہ ایک ایسا نا گہانی صدمہ بن جاتا ہے ،جو ہر شخص کو اندر سے ہلا کر رکھ دیتا ہے ۔قلبِ شہر میں واقع ایک چھوٹے سے محلےبنام ملا باڑہ میں شیخ عمران کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا۔
عمران ایک خوبصورت گورا چٹا ،متناسب الاعضاء اور دراز قامت نوجوان تھا ۔زندگی کی پینتیس بہاریں دیکھ چکا تھا ۔تعلیم کچھ زیادہ حاصل نہ کر سکا ۔لیکن دوسرے نوجوانوں کی طرح خاموش بیٹھنا بھی پسند نہیں کرتا تھا ۔جب دیکھا کہ شہر عزیز کی خاص معیشت آئے دن مندی کا شکار رہا کرتی ہے ،تو خود کے لئے ایک چھوٹا سا ،لیکن باوقار اور حلال رزق کی کمائی کا ذریعہ ڈھونڈ لیا۔
اس نے کسی بھی طرح کی نوکری پسند نہیں کی ۔اپنی خودداری کو ملحوظ رکھتے ہوئے چائے فروشی کا چھوٹا سا دھندہ شروع کر لیا ۔اس نے کبھی کسی گاڑی یا ٹھیلے پر چائے فروخت نہیں کی ۔کوئی ہوٹل یادکان بھی نہیں لگائی ۔بلکہ محلے کے اطراف و اکناف میں جا کر دکانداروں کو خود چاہے پلایا کرتا تھا ۔ایک اسٹیل کے بڑےسے تھرماس میں گھر سے چائے بنا کر نکل پڑتا تھا اور گھنٹوں گلی گلی ،محلہ محلہ گھوم کر چائے فروشی کیا کرتا تھا ۔
اپنے نرم سلوک اور نرم سبھاو کی وجہ سے وہ تمام دکانداروں کا ہردلعزیز بن چکا تھا ۔لوگوں نے اسے شہر کے سبزی مارکیٹ میں چھوٹی بڑی ہر دکان پر دیکھا ہے ۔سبزی فروشوں میں ہندو بھائیوں سے تو اس کے اتنے اچھے تعلقات ہوگئے تھے کہ وہ وقت پر شدت سے اس کا انتظار کیا کرتے تھے ۔اتنا ہی نہیں اکثر و بیشتر وہ شہر سے دور کیمپ یا لشکر کے سبزی مارکیٹ میں بھی دیکھا جاتا رہا ہے ۔اور وہاں کے برادران وطن کو بھی اپنی چاۓ کا گرویدہ کرتا رہا ہے ۔اس کا نرم رویہ، سلوک ،نرم گفتاری اور دکانداروں کے تئیں عزت و احترام ،ایسی صفات تھیں ،جو اسے دوسرے چائے فروشوں سے الگ کر دیتی تھی ۔
اتنے خوش اخلاق نوجوان کا یوں اچانک ایک حادثے کا شکار ہو کر ،دیڑھ دنوں تک زندگی اور موت کی کشمکش میں رہنے کے بعد ،داعیٔ اجل کو لبیک کہہ دینے سے صدمے کی جو لہر سب کو غمگین کر گئی ،وہ یقیناً اپنے اندر ان معنوں میں بھی گہرائ رکھتی ہے کہ سبزی فروش برادران وطن تا اٹھ کر ملا باڑے میں چلے آئے اور غم میں شریک ہوئے ۔اتنا ہی نہیں وہ اپنی دوکان پر آنے والے ہر مسلم کو عمران کی ناگہانی موت کی خبر دیتے رہے اور اپنے دکھ کا اظہار کرتے رہے ۔
اور سننے والوں کو دوہرا صدمہ ملتا رہا کہ ایک تو اتنا خوش اخلاق نوجوان ،دوسرے بھری جوانی میں راہیٔ ملکِ عدم ہوا ۔
اس کا ثبوت اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہزاروں افراد کا ایک جم غفیر تھا جو عمران کے جنازے میں شریک ہوا ۔اور اسے سپرد لحد کرکے اس کی مغفرت کی دعا کرتا رہا۔کسی عظیم المرتبت شخص کی موت پر، کسی سیاسی، دینی نیز سماجی یا دولت مند شخص کی موت پر سماج اور معاشرہ اپنے رنج و غم کا اظہار ،جنازوں میں شرکت کرکے ،اخباروں میں ان کی تعریفوں کے پل باندھ کر اور تعزیتی مجالس منعقد کرکے کرتا ہے ۔اور معاشرہ یہی سمجھتا ہے کہ ایسی شخصیات کو دیا گیا خراج تحسین اپنے اندر کون سا درجہ رکھتا ہے اور عمران جیسے غیر معروف نوجوانوں کی موت کا صدمہ اپنے اندر کون سا درجہ رکھتا ہے ۔اس لئے کہ صدمات، تقاریر اور قلم تک بعد میں پہنچتے ہیں ۔یہ تو پہلے دلوں میں ابھر آتے ہیں ،پھر آنکھوں سے چھلکتے ہیں۔
عمران کے صدمے نےآنکھوں سے زیادہ دلوں کو رلایا ہے۔ہماری دعا ہے خدائے پاک عمران کی بال بال مغفرت فرمائے، آمین ۔




