دسویں اور بارہویں جماعت میں زیرتعلیم طلباء و طالبات پڑھائی لکھائی میں مصروف ہوں گے۔ انھیں پڑھائی میں منہمک رہنا بھی چاہیے کیوں کہ یہ اُن کی زندگی کا اہم ٹرننگ پوائنٹ ہے جہاں سے علم و ادب کی، آگے کی تعلیم اور روزگار کی منزلیں انھیں طے کرنا ہے۔
ہمیں امتحان سے قبل کے بہت سے تجربات ہیں جنھیں آپ کے رو برو کرنا بھی اپنا فرض عین سمجھتا ہوں۔ دراصل یہ وہ نسخے ہیں جنھیں اپنا کر لوگ بلندیوں تک پہنچ گئے ہیں۔ جو درج ذیل ہیں۔
اعادہ : امتحان سے قبل جو آپ نے پڑھا ہے اُسے دُہرا لیا جائے۔ اس طرح آپ اپنی ذہانت کا امتحان لے سکیں گے کہ آپ کو نصابِ تعلیم کا سبق یاد ہوا یا نہیں؟
پرسکون جگہ: جب آپ پڑھ رہے ہوں اُس وقت وہ جگہ پُرسکون ہوں۔ مکمل توجہ کے ساتھ آپ مواد پر دھیان دیں۔
پڑھائی : جب آپ پُرسکون جگہ پر پڑھائی کر رہے ہوں۔ پوری دلجمعی کے ساتھ پڑھتے پڑھتے آپ خود کو تھکا ہوا محسوس کریں تو بعض لوگ صرف منہ پر پانی مار لیتے ہیں بعض موبائل میں لگ جاتے ہیں۔ پڑھتے وقت اگر آپ اکتاہٹ محسوس کر رہے ہیں تو پھر آپ اس جگہ سے اُٹھ جائیے اور وضو کیجئے وضو کرکے آپ تازہ دم ہوجائیں گے۔ اب آپ پڑھائی کے لیے دوبارہ ریچارج ہوگئے ہیں۔
موبائل: پڑھائی کے وقت اپنے پاس موبائل نہ رکھیں کیوں کہ موبائل نے گھڑی، وقت، نماز، تلاوت، مطالعہ، رشتے ناطے سب ختم کر دیئے ہیں۔ یہ موبائل آپ کو بھی ختم کردے گا۔ اس لیے آپ پڑھتے وقت، لکھتے وقت موبائل سے دور رہیں۔ تعلیم سے بڑھ کر کوئی مسیج نہیں۔
زبردستی پڑھنا: آپ کو نیند آرہی ہے تو آپ نیند کو پورا کریں۔ اپنے آپ پر جبر نہ کریں۔ بعض طلباء چائے یا کافی پی پی کر بیدار رہنے کوشش کرتے ہیں۔ یہ پڑھائی کے لیے بالکل غلط ہے۔ اگر آپ ذہنی طور پر تھکے ہوئے ہیں تو دماغ کو بھی اور خود کے جسم کو بھی مکمل آرام دیں۔ کچھ دیر کے لیے سو جائیں۔ بیدار ہوتے ہی ضروریات سے فارغ ہوکر دوبارہ پڑھائی کی طرف رُجوع ہوجائیں۔
نظام الوقت: اچھی صحت کے لیے وقت پر کھانا، وقت پر سونا ضروری ہے۔ قوت بخش غذا کھائیں۔ خوب پیٹ بھر کر شکم سیر ہوکر مت کھائیے۔ زیادہ کھانے سے سستی آئے گی اور آپ کا دھیان پڑھائی میںنہیں لگے گا۔
صبح جلدی اُٹھنا: رات گئے جاگتے رہنے سے یادداشت پر اثر پڑتا ہے۔ اس لیے پڑھائی کے لیے ضروری ہے کہ آپ رات میں جلدازجلد سوجائیں اور صبح جلد بیدار ہوجائیں۔ نماز سے قبل غسل و ضروریات سے فارغ ہوکر نماز، تلاوت کرنے کے بعد آپ پڑھائی کرنا شروع دیں۔ ہمارے اکابرین کا یہی طریقہ کار رہا ہے۔
غور و فکر: کسی موادِ تعلیم کو بار بار رٹنے کی بجائے اُس پر غور و فکر کرلیا جائے کہ مصنف/ مصنفہ/ شاعر یا سائنس داں کیا کہنا چاہتا ہے؟ اس طرح غور و فکر کرنے سے نصاب جلد یاد ہوجائے گا۔
پوائنٹ/نقاط: کتاب یا نوٹس میں سے آپ نے سال بھر میں جو اہم نقاط/ پوائنٹ بنائے ہوں گے وہی امتحان سے قبل پڑھے جائیں تو بہتر ہے۔ بار بار رٹنا یا پھر پوری کتاب لے کر بیٹھنا ٹھیک نہیں ہے۔
پرچے: سابقہ پرچوں میں سے کوئی ایک پرچہ حل کیجئے اور وقت کے حساب سے دیکھو کہ کتنا وقت ایک پرچے میں لگا؟ کتنے سوالات آپ نے حل کیا؟ اس طرح آپ وقت کا تعین کرسکیں گے کہ آپ کو کتنی رفتار سے لکھنا ہے کہ جوابی کاپی پُر ہوجائے۔
یکساں وقت: کسی مضمون کو کم یا کسی مضمون کو زیادہ وقت نہ دیں بلکہ تمام مضامین کو یکساں وقت دیں۔ بہتر ہو کہ جو بہت مشکل معلوم ہوتے ہوں وہ پہلے پڑھے جائیں۔ بہت سارے طلباء آسان سوالات کو پہلے ترجیح دیتے ہیں پھر مشکل کی جانب مڑ جاتے ہیں۔ بہرحال وہ اپنی ذہنی بصیرت پر ہے۔
خوداعتمادی: سبق کے خاتمے کے بعد مشقی سوالات دیئے جاتے ہیں جو آپ نے سال بھر پڑھا ہے اب صرف سوالات اس جگہ سے دیکھیں اور جواب زبانی کہتے جائیں تو ہماری سمجھ میں آجائے گا کہ مواد سبق ہمیں یاد ہوا یا نہیں؟ ہم اس طرح خود کی قدر پیمائی کرسکیں گے۔ جب جواب خود دہرائیں گے تو ہمارے اندر خوداعتمادی پیدا ہوگی۔