آٹھ ریاستوں سے ۲۵ریسرچ اسکالر اور نامور ادباء نے کی شرکت۔
برہان پور:(اعجاز احمد راہی) قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان نئی دہلی کے اشتراک سے سیوا سدن کالج برہان پور کے شعبئہ اردو،فارسی اور اردو ریسرچ سینٹر کی جانب سے دو روزہ قومی سیمینار بعنوان " مولانا ابوالکلام آزاد کی عصری معنویت"کا انعقاد ہوا۔اس موقع پر شعبئہ اُردُو فارسی کے صدر اور ریسرچ گائیڈ ڈاکٹر ایس ایم شکیل کے مضامین کا مجموعہ "شگفتہ تحریریں" کا اجراء بھی عمل میں آیا۔
اس سیمینار کے افتتاحی اجلاس کی صدارت سیوا سدن ایجوکیشن سوسائٹی کی صدر تاریکا وریندر سنگھ ٹھاکر نے کی۔ کلیدی خطبہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی نئی دہلی کے اُردُو پروفسیر و کونسل کے سابق ڈائریکٹر پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے پیش کیا۔ بطور مہمان خصوصی برہان پور کے رکن اسمبلی ایم ایل اے ٹھاکر سریندر سنگھ شیرا بھیا مہمانِ ذی وقار مشہور شاعر،ادیب، صحافی نیوز ۱۸ بھوپال ڈاکٹر مہتاب عالم بھوپال، ڈاکٹر حمیداللہ خان پربھنی موجود رہے۔ اس موقع پر ڈاکٹر ایس ایم شکیل کی تصنیف " شگفتہ تحریریں" کا اجراء بھی عمل میں آیا۔ ساتھ ہی عالمی ریسرچ جرنل تزئین ادب کے غالب نمبر کا بھی اجراء بھی ہوا ۔ کتاب کی اشاعت پر کالج انتظامیہ نے ڈاکٹر شکیل کا پُر جوش استقبال و اعزاز کیا۔
مہمانان کا استقبال شال، نشانِ یادگار اور گلدستہ پیش کر کے کیا گیا۔ صدر شعبئہ اردو فارسی ڈاکٹر ایس ایم شکیل نے سیمینار کے مقاصد اور کالج و شعبہ کا تعارف پیش کیا۔۔۔
ڈاکٹر محمد خواجہ اکرام نے اپنے کلیدی خطبے میں مولانا آزاد کی خدمات و شخصیت پر سیر حاصل گفتگو کی ۔ آپ نے کہاکہ مولانا ابوالکلام آزاد ہمیشہ ملک کی عوام کو تعلیم سے آراستہ کرنا چاہتے تھے۔ آپ ملک کے بٹوارے کے مخالف تھے۔ آپ ہندو مسلم اتحاد کے بڑے علمبردار تھے۔ آپ کی تعلیمی خدمات کو دیکھتے ہوئے آپ کو آزاد بھارت کا پہلا وزیرِ تعلیم بھی بنایا گیا۔ مولانا کی اُردُو خدمات کو اُردُو ادب کبھی فراموش نہیں کر سکتا ۔ ڈاکٹر مہتاب عالم نے مولانا کی شاعری اور صوبہ مدھیہ پردیش سے مولانا کے رشتے پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔ آپ نے کہا کہ مہاراشٹر سے مولانا کا قید و بند کا رشتے تھا لیکن مدھیہ پردیش سے محبتوں کا رشتہ رہا۔ پربھنی سے تشریف لائے ڈاکٹر حمیداللہ خان نے مولانا کی وطن پرستی پر اپنی بات رکھی۔ اپنے صدارتی خطبے میں تاریکا ویریندر سنگھ جی نے فرمایا کہ آج ہمارے دیش کو مولانا جیسے انسان کی ضرورت ہے ۔ مولانا نے کبھی بھی انگریزوں کے سامنے اپنا سر نہیں جھکايا۔ مولانا کے دو ہی مقصد رہے پہلا ہندو مسلم اتحاد اور دوسرا دیش کی آزادی۔
دو روزہ سیمینار کے تمام ادبی اجلاس میں جن مقالہ نگاران نے موضوع کی مناسبت سے مقالے پیش کیے ان میں ڈاکٹر بلقیس شاد بھوپال، ڈاکٹر غلام حسین اجینّ ، ڈاکٹر ساجد قادری شیرپور، ڈاکٹر عتیق احمد قریشی بدنا پور، ڈاکٹر عثمان انصاری برہان پور، ڈاکٹر فہمیدہ منصوری، ڈاکٹر شہزاد انجم ،آرا ،بہار، ڈاکٹر عشرت فاطمہ میسور، ڈاکٹر یاسین گنائی کشمیر، ڈاکٹر مشتاق گنای جمّوں، ڈاکٹر آصف امراوتی، ڈاکٹر اقبال جاوید ہنگولی، حاجی انصار بھساول، ڈاکٹر نورالہی ناسک، ڈاکٹر ظفر محمود اُجینن، ڈاکٹر اسرا ر اللہ برہان پور، پروفیسر محمد الطاف برہان پور، فرزانہ تنویر برکاتی کے ساتھ ساتھ کچھ کشمیری ریسرچ اسکالر نے تفصیلی ،تحقیقی و پُر مغز مقالے پیش کیے۔ ان کے علاوہ بھوپال اور دیگر علاقوں سے تشریف لائے مقالہ نگاران نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔۔ ادبی اجلاس کی صدارت پروفیسر خواجہ اکرام الدین ، ڈاکٹر بلقیس شاد، ڈاکٹر غلام حسین، ڈاکٹر ساجد علی قادری ، نے فرمائی۔ افتتاحی اجلاس کی نظامت ڈاکٹر ایس ایم شکیل اور اختتامی اجلاس کی ڈاکٹر عتیق احمد قریشی نے اپنے خوبصورت و منفرد انداز میں کی۔ رسم شکریہ پروفسر الطاف انصاری نے ادا کیا۔ اس موقع پر کالج کے پرنسپل ڈاکٹر انیل کپاڈیا ،سیکرٹری ہنس مکھ زری والا جی، منیش پٹیل و نمائندہ اعجاز احمد راہی کے ہمراہ دیگر سوسائٹی ممبران ۔ اساتذہ ، شعراء، اُدبا، طلباء طالبات بڑی تعداد میں موجود تھے۔ یہ سیمینار بڑی کامیابی کے ساتھ اختتام کو پہنچا۔۔