بڑے افسوس کا مقام ہے ہمارے مسلم معاشرے میں جہاں بے شمار برائیوں نے جگہ بنائی ہوئی ہے وہیں قتل اور خودکشی کرنے جیسے حرام کام بھی ہمارے معاشرے میں جڑ پکڑتے جارہے ہیں گزشتہ دو ہفتوں میں شہر عزیز کے اندر قتل اور خودکشی کے کئی واقعات یک کے بعد دیگرے رونما ہوئے ہیں اگر ہم صرف خودکشی کے متعلق ہی بات کریں تو بہت ہی حیران کن حقیقت ہماری سامنے آتی ہے خود کشی کرنے والوں کی اکثریت مسلمانوں کی ہے، خودکشی کوئی بھی کرے چاہے مرد یا عورت خودکشی کرنا شریعت اسلامیہ میں سخت حرام ہے یہ آخرت میں ذلت و رسوائی ملنے کے ساتھ ہی جہنم میں لے جانے کا سبب ہے سب سے بڑھ کر اللہ و رسول (جل جلالہ و صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس فعل کو ناپسند فرمایا، جس عمل کو اللہ سبحان تعالیٰ و رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند کیا اسے کوئی بھی عقل شعور رکھنے والا بھلا کیوں پسند کرسکتا ہے خودکشی کا جو رجحان آج کل تیزی سے بڑھ رہا ہے اس کے پیچھے بے شمار وجوہات ہوتی ہیں غربت و افلاس بیماریاں نامساعد حالات پیچیدہ معاملات یا پھر اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہ کرپانا بہرحال اپنی اہم اور قیمتی جان کو ختم کرنے کا جو سلسلہ شروع ہوچکا ہے حد درجہ افسوسناک ہے اس کا جتنا ذمہ دار خودکشی کرنے والا ہے اتنا ہی مسلم معاشرے میں رہنے والے وہ سارے افراد بھی ہیں جو قابلیت صلاحیت ہونے کے باوجود دولت عزت ہونے کے باوجود اثر و رسوخ رکھنے کے باوجود اور پنچ کمیٹی کے عہدوں پر فائز ہوتے ہوئے بھی اپنے علاقوں گلی محلوں کی خبر گیری نہیں کرتے جبکہ خبر گیری کرنا مدد فراہم کرنا یہ تو انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت بالخصوص سنت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم و سنت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہے تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ ماضی میں ہمارے اسلاف کس قدر امت کے خیر خواہ ہوا کرتے تھے امت مسلمہ کے افراد کی خبر گیری دست گیری کیا کرتے تھے جن لوگوں نے شریعت مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف خودکشی جیسا حرام کام کیا بہر حال اس کا حساب بارگاہ خداوندی میں انھیں دینا ہوگا ان کو اگر بتایا جاتا مشکل وقتوں میں ان کی مدد کی جاتی ان کو حالات سے مقابلہ کرنے اور جدوجہد کرنے کا حوصلہ دیا جاتا تو شاید خودکشی کا یہ رجحان اتنا ذیادہ نہ بڑھنے پاتا، ہم اور آپ بہت اچھے طریقے سے جانتے ہیں کہ ہمارے علاقوں میں پڑوس میں کون کتنی تکلیفوں سے گزر رہا ہے کون قرض کے بوجھ تلے دبا ہے کس کے گھر بیٹیاں جوان ہوکر بوڑھی ہونے لگی ہے اور وہ پیسوں کے انتظام ہی میں لگا ہوا ہے کتنوں کے پاس علاج کے لیے پیسے نہیں ہے اور بڑی بڑی جان لیوا بیماریوں سے جیسے تیسے مقابلہ کررہے ہیں خودکشی کے ایک بعد ہونے والے واقعات پر صرف تبصرہ کرنے یا مذمت کرنے سے قطعی کام نہیں چلنے والا بلکہ جہاں ہم اس بات کو لیکر فکرمند ہیں کہ ہمارے مسلم افراد مسلسل خودکشی کررہے ہیں تو وہیں ہمیں اس کے اسباب و وجوہات کا احاطہ کرنے اور جائزہ لینے کی سخت ضرورت ہے اور اپنی اسلامی سماجی اور معاشرتی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے ہمیں کچھ عملی میدان میں آگے آکر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے .
خودکشی کے بڑھتے واقعات آخر ذمہ دار کون؟ رقمطراز :- محمد مدثر حسین رضوی مالیگ صدر, اعلیٰ حضرت فاؤنڈیشن مالیگاؤں موبائل :- 9021809898
ستمبر 12, 2022
0
Tags

