سوچئے، تعلیمی ڈگریاں ہیں. جو اسی لیے حاصل کی گئی کہ زندگی پرسکون ہو، تعلیم کے نام پر روپیہ پیسہ بھی کمایا جا رہا ہے. نکاح سے قبل جوڑوں نے ایک دوسرے کو دیکھا بھی، دونوں کی صورتیں بھی اچھی ہیں. باوجود اس کہ گھر میں ہنسی خوشی کا ماحول نہیں ہے. ہر وقت جھگڑے ہیں جو بند ہونے کا نام نہیں لیتے. امن و سکون غارت ہوچکا ہے. میاں بیوی بھی پریشان، اور ان کے معاملات میں والدین و دیگر رشتہ دار بھی، جبکہ شادی سے قبل یہی تمام لوگ ان ہی چیزوں کے لیے پریشان تھے جو کہ اب حاصل ہوگئی تو گویا ایک اور نئی مصیبت کھڑی ہوگئی
وہ یہ ہے کہ بیٹی اور داماد میں نباہ مشکل ہو رہا ہے، جبکہ بیٹی بھی صورتاً اچھی، پڑھی لکھی،نیک سیرت اور داماد بھی تعلیم یافتہ، خوشحال گھرانہ، ملازمت بھی اونچے درجے کی. لیکن مزاج ہے کہ ملتا ہی نہیں. جو کہ شادی سے قبل جانا نہیں گیا. لیکن اب تو شادی ہوگئی، اسے زندگی بھر جھیلنا ہے یا پھر علیحدگی کا سامنا ہے. یا پھر یہ کہ دونوں کے مزاج میں تبدیلی آجائے. لیکن مزاج میں تبدیلی تو آسان نہیں ہے . مزاج کا تعلق گھریلو ماحول سے ہے، جو بچپن سے جوان ہونے تک صبر و شکر، برداشت و ناز نخروں کے ساتھ، گھر والوں کے درمیان میں مختلف حالات میں رہنے سے بنتا ہے. گھریلو حالات مذہبی ہوں، ماڈرن ہوں یا سیکولر، مذہب میں تو ظلم و زیادتی نہیں، بلکہ عدل و انصاف ہے، جبکہ غیر مذہبی ماحول میں لڑکا اور لڑکی دونوں آزاد، ان کا ذہن کسی بھی طرح کی جوابدہی کے تصور سے خالی، نہ خوف خدا، نہ والدین، بھائی بہنوں اور رشتہ داروں کا احترام، نہ کسی کے حقوق کی پرواہ. جیسے چاہا زندگی گزاری. جب چاہا پیار کیا، اور جب دل بھر گیا یا کہیں اور لگا لیا تو پھر ظلم و زیادتی. اسلئے ضروری ہے کہ رشتے ناطے کرنے سے قبل ان کے مزاج کا جاننا اور ان کا ملنا انتہائی ضروری ہے. ازدواجی زندگی کا مقصد اور خوشی میاں بیوی کے ملتے جلتے مزاج سے ہی حاصل ہوتی ہے. لیکن یہ سمجھنا ان کے والدین اور خاندان کے سمجھداروں کا کام ہے نا کہ غیر تجربہ کار اور نئی نئی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے والے بچے اور بچیوں کا. اور یہ بات تجربہ کی ہے کہ جہاں ایسا ہوتا ہے کہ مزاج نہیں ملتے وہاں آگے چل کر اکثر شادیاں ناکام ہوجاتی ہیں.
