31؍اکتوبر قومی یک جہتی دن اور موجودہ حالات از: شکیل مصطفی، مالیگاؤں 9145139913
Author -
personحاجی شاھد انجم
اکتوبر 28, 2025
0
share
ایک مہذب معاشرہ اسی وقت اپنی حقیقت افروزی پر مبنی قرار پاتا ہے جب اس کی روایات کا وہ پاسدار ہوتا ہے۔ اس کو عیاںکرنے کے لیے احسان مندی وہ کسوٹی ہوتی ہے جو اس معاشرہ کے کھرے کھوٹے ہونے پر تصدیق مہر ثبت کرتی ہے۔ اس پیمانے پر دیکھا جائے تو وطن عزیز ہندوستان جنت نشان کلی طور پر کھرا ثابت ہوتا ہے اس کی مختلف وجوہات ہیں۔ مغرب کے زاویے سے دیکھیں تو ہمارا ملک سپیروں اور جادوگروں کا ملک ہے لیکن مشرقی علوم کے علماء ہمارے ملک کو اپنی شاندار اور گوناگوں روایات کا امین گردانتے ہیں یہ نسبت مغربی ناقدین کے مشرق کے ماہرین جن کا تعلق بھی مشرق سے ہوتا ہے وہ اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ قدرت نے مشرق کے خمیر میں اخلاقی اقدار، احساسِ سپاس گذاری اور اپنے بزرگوں کی قربانیوں کو اپنی یادوں کے نہاں خانوں میں سنجو کر رکھنا یہ وہ ایسے انمول عوامل ہیں جسے قدرت نے باقاعدہ گوندھ دیا ہے۔ جس کے سبب مشرق اور اس میں بھی خاص طور پر وطن عزیز ہندوستان عالمی نقشے میں اپنی منفرد اور ممتاز حیثیت رکھتا ہے اور یہ مقام ومرتبہ پانچ سات دہائیوں پر ہی محیط نہیں ہے بلکہ جب اکھنڈ بھارت تھا جب بھی ہم اخلاقی قدروں سے آراستہ و پیراستہ تھے یہ اور بات ہے کہ تقسیم وطن کے بعد ہم اس سلسلے میں مزید جذباتی اور حساس نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم سال کے بارہ مہینوں میں اپنی روشن تاریخ ہمارے بزرگوں حتیٰ کہ صوفی سنتوں کو بھی اتنی ہی پابندی کے ساتھ یاد کرتے ہیں جسے ہم اپنے خاندانی بزرگوں کو جینتی اور برسی پر یاد کرتے ہیں۔ عنوان نے ہمیں باندھ نہیں رکھا ہوتا تو ہم اس کو شرح صدر کے ساتھ بیان کرنے کی زحمت اٹھا لیتے پھر چاہے اس کے لیے ہمیں دسیوں صفحات ہی کیوں نہ سیاہ کرنا پڑتے تاہم ہمیں اس بات کا بہرحال اطمینان ہے کہ 31اکتوبر کے تناظر میں ہم فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور قومی یکجہتی کی یاد دہانی کراتے ہوئے کچھ تلخ و شیریں واقعات و سانحات پر بھی قدرے تفصیل سے روشنی ڈال پائیں گے۔ 31 اکتوبر ویسے تو ہندوستان کے اولین مردآہن سردار ولبھ بھائی پٹیل کا یوم پیدائش ہے۔ ہم اور آپ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ آزادی کے بعد سے او رسردار ولبھ بھائی پٹیل کے انتقال کے بعد یہ دن ہم بطور قومی یکجہتی کے مناتے ہیں۔ البتہ درمیان میں یعنی آج سے تقریباً چالیس برس قبل آج ہی کے دن ہماری وزیراعظم خاتون آہن اندرا گاندھی کا یوم شہادت بھی ہے یہ وہ سانحہ ہے جس نے ہماری روش قومی یک جہتی اور ہم آہنگی بھائی چارہ کی روایات پر کالک پوت کر رکھ دی۔ اس کے باوجود ہم نے بہ حیثیت ہندوستانی قوم آج کے دن کو اتحاد و سلامتی کی یادگار کے طور پر منانے کی روایات کو جاری و ساری رکھا اور آج بھی محض خانہ پری کے طور پر ہم نے سردار پٹیل کے توسط سے یک جہتی کی سنہری چڑیا کو اقوام عالم کے سامنے پیش کرنے کی جرأت و جسارت کرتے آرہے ہیں۔ اس کی وجوہات کو بہت کچھ کھول کھول کر بیان کرنے کی ضرورت بھی اب باقی نہیں رہ گئی ہے وجہ ہم اور آپ بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ 2014ء میں سب کا ساتھ سب کا وشواس اور سب کا وکاش کے خوش نما وعدوں اور نعروں کی گونج میں ایسے لوگ اقتدار میں آگئے جن کا یک جہتی کا نظریہ زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے وہ بھلے سرکاری طور پر سردار پٹیل اور اندرا گاندھی کی تصاویر پر گل ہائے عقیدت نچھاور کر رہے ہوں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس اقتداری ٹولے کا ہم آہنگی اور بھائی چارے سے دور تلک کچھ بھی لینا دینا نہیں ہے ہمارے موجودہ وزیراعظم لال قلعہ کی فصیل سے چاہے جتنی بھائی چارے کے قیام کی قسمیں کھالیں بھلے ہی وہ 140کروڑ عوام کے بھلے اور ترقی کی باتیں کرتے رہیں من کی بات کے نام پر گول گول لچھے دار پندو نصائح دیتے رہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ اب قومی یک جہتی جیسا لفظ بے معنی ہو کر رہ گیا ہے۔ پہلے ہندو مسلمان سیر شکر کی طرح رہتے تھے لیکن اب ملک میں غیر اعلانیہ آمریت کا دور دورہ ہے۔ حکومت سے اپنے حقوق کی مانگ کرنا دیش دروہی کے خانے میں شمار کیا جانے لگا ہے۔ ملک کی دوسری سب سے بڑی اکثریت یعنی مسلمان کو اب قاعدہ حاشیے پر ڈال دیا گیا ہے۔ ان کے مذہبی آزادی کے حقوق پر دھڑلے سے شب خون مارا جارہا ہے۔ احتجاج کی صورت میں برسوں قید خانوں کی اندھیری کوٹھریوں میں قید کردیا جاتا ہے۔ برسہا برس ہوجاتے ہیں جن دفعات میں اکثریتی طبقہ کے محروسین کو یہ سہولت ضمانت دے دی جاتی ہے مسلمانوں کی تو شنوائی تک نہیں کی جاتی۔ ضمانت دینا تو دور کی بات ہے۔ مذہبی وضع قطع میںمسلمان اپنے گھروں اور گھروں سے باہر بھی محفوظ نہیں ہیں۔ مذہبی جنونیوں کا ایک غول آتا ہے اور وہ ماب لنچنگ کرکے جان سے مار ڈالتا ہے اس کے بعد بھی پولس اور عدالتوں کی کاروائی انصاف پر مبنی نہیں ہوتی۔ معمولی معمولی عوامی احتجاج کو میڈیا ٹرائل کے حوالے کردیا جاتا ہے جس کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جارہا ہے۔ اب تو بالائے ستم یہ کہ مسلمانوں کے گھروں کو بلڈوزر کے ذریعے زمین دوز محض الزام تراشی کے فوری بعد کردیا جاتا ہے۔ عدالتیں چاہے جتنا منع کریں لیکن حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ عدالتیں مجبور محض تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ ہم قومی یک جہتی کی بات کس منہ سے کریں جب حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ مسلمانوں کا معاشی بائیکاٹ تک کیاجانے لگا ہے۔ مذہبی میلوں ٹھیلوں میں اب وہ کاروبار نہیں کرسکتے، کھانے پینے کی اشیاء فروخت نہیں کرسکتے۔ حتیٰ کہ غیر مسلموں کے تہواروں میں بھی شریک ہونے پر اب پابندی عائد کی جارہی ہے۔ آج ہم ایک دوسرے کی خوشیوں میں محض ایک واٹس ایپ مسیج کی صورت میں شریک ہوتے ہیں۔ ہمارے وزیراعظم کہتے ہیں کہ عید کے روز ان کے گھر کھانا نہیں بنتا تھا کیونکہ اسی دن ان کے مسلمان پڑوسی ان کے یہاں شیر خورمہ اور کھانا پہنچاتے تھے۔ اس دعوے میں کتنی سچائی ہے یہ تو محض وہی جانیں لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ اب ملک میں قومی یک جہتی کا تصور ہی ختم ہوکر رہ گیا ہے۔ ملک میں بھلے ہی سیکولر دستور کا نفاذ ہے لیکن اس آئین کی خلاف ورزی دن کے اجالے میں پوری بے باکی کے ساتھ کی جاتی ہے۔ مسلمان اب بس اڈوں، ریلوے اسٹیشنوں او رہوائی اڈوں پر کھلے عام نماز نہیں پڑھ سکتے۔ وہ اپنے نبی سے محبت کا عوامی اظہار بھی نہیں کرسکتا۔ مساجد، مقابر او رخانقاہیں نئے اوقاف قانون کے تحت ہڑپنے کی پوری کوشش کی جاچکی ہے۔ مسلمان طلبہ و طالبات کو اقلیت کے ناطے سے ملنے والی سرکاری اسکالرشپ بند کرکے مسلمان بچوں کو تعلیم اور اعلیٰ تعلیم کے حصول سے محروم کئے جانے کا سلسلہ جاری ہوچکا ہے۔ فوج اور پولس میں مسلم نوجوانوں کو مختلف حیلوں بہانوں سے ان فٹ قرار دے کر بھرتی نہیں کیا جاتا ہے۔ دہشت گردی کے معاملات میں سازشی طور پر ملوث کرکے دس بیس سالوں تک جیلوں میں ٹھونس کر رکھا جاتا ہے بعد میں عدالتیں انہیں ناکافی ثبوتوں کی بنیاد پر رہائی کا پروانہ عطا کرتی ہیںتو بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ نوعمر اور نوجوانی میں جیل جانے والے ادھیڑ اور بوڑھے ہوکر رہا ہورہے ہیں۔ دیانت داری کی بات تو یہ ہے کہ ہم نے جتنی باتیں مسلمانوں کے تعلق سے بیان کی ہیں وہ تو محض ایک نمونے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس سے بھی زیادہ بھیانک صورت حال کا سامنا نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ دیگر مذہبی اقلیتوں کے ساتھ بھی ناروا سلوک کیا جارہاہے۔ ہمارے سیاستداں انیکتا میں ایکتا کی بات کرتے ہیں لیکن عملی طور پر کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا جاتا۔ اور وہ کریں گے بھی کیوں؟ جب ان کے اقتدار کے پائے نفرت بغض و عناد پر مبنی ہیں۔ بڑی عجیب صورت ہے ایک طرف وزیراعظم اور ان کے کارنامے سردار پٹیل کے مجسمہ کو اتحاد کی علامت کے طور پر قائم کیا ہے دوسری طرف ہمارے وزیراعظم انتخابی جلسوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز پرچار کرتے ہیں۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ موجودہ اقتداری سیاستدانوں کے قول و فعل میں کس قدر تضاد ہے۔ 31؍اکتوبر کو ہمارے وزیراعظم اور ان کے کابینی وزراء سردار پٹیل اور اندرا گاندھی کی روغنی تصاویر پر چاہے جتنی پھول مالا چڑھالیں لیکن یہ صرف اور صرف خانہ پری اور ایک قدیم روایت کی پاسداری کے سوا کچھ بھی نہیں ہے کیونکہ جن کے اقتدار کی اساسی ہی نفرت ایک دوسرے سے دور کرنا اور دوسرے تیسرے درجے کا شہری بناکر رکھنا ہو آخر وہ کیوں فرقہ وارانہ ہم آہنگی،آپسی بھائی چارہ اور قومی یک جہتی کے لئے پرخلوص اور دیانت دارانہ منصوبہ سازی کریں گے؟ اس طرح کے نفرتی لوگوں کے حکومت اور سرکار میں رہتے تو حقیقی قومی یک جہتی کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا۔ لیکن یہ بھی اتنی اٹل سچائی ہے کہ ہندوستان کی مرکزی اور صوبائی حکومتیں اپنی سی کوشش کرلیں عوام کو ایک دوسرے سے دور کرنے کی لیکن اس ملک کے خمیر میں بقائے باہمی، مذہبی رواداری، بھائی چارہ، جذبۂ خیرسگالی رچابسا ہے۔ دیر سویر ایک بار پھر وطن عزیز ہندوستان جنت نشان ہندو مسلم سکھ عیسائی اتحاد کا گہوارا بنے گااور یہ نفرتی ٹولہ کتنی بھی اچھل کود کیوں نہ کرلے وہ بھائی کو بھائی سے جدا کرنے میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔جگرؔ نے کیاخوب کہا ہے ؎ چمن میں اختلاط و رنگ و بو سے بات بنتی ہے ہم ہی ہم ہیں تو کیا ہم ہیں، تم ہی تم ہو تو کیا تم ہو