“مغلوں کا جھوٹ تاریخ سے ہٹایا جا رہا ہے اب اگلے مرحلے میں ان کا سچ بتایا جائگا۔” یہ ٹویٹ ہے دلی بی جے پی ترجمان کپیل مشرا کا-
اس طرح کے بے شمار ٹویٹس بیان ہمیں پڑھنے اور سننے ملینگے جو سی بی ایس ای کے نصاب میں کی گئی ترمیم سے متعلق ہے
حکومت کی جانب سے نصابی نظام اور مواد میں ترمیم، تخفیف و تبدیلی کی جاتی رہی ہے- ۲۰۲۲ء میں این سی ای آر ٹی کی جانب سے نصاب میں بدلاؤ کا اعلان کیا گیا تھا- اس پر عمل درآمد کے لئیے سائنس ، ہندی اور تاریخ و سیاسیات کے نصاب میں ترمیم کی گئی ہے- اتر پردیش حکومت نے اس نئے نصاب پر عمل در آمد کا اعلان بھی کردیا ہے-یاد رہے سی بی ایس ای کا نصاب ملک کی کل اٹھارہ ریاستوں میں اپنایا جاتا ہے اور پانچ کروڑ طلبا ء اس نصاب کے ذریعے تعلیم حاصل کرتے ہیں- ۲۰۱۸ء میں اس وقت کے وزیر تعلیم نے نئی تعلیمی پالیسی کا اعلان اعلان کیا تھا جس کے مطابق طلبا ء کی سہولت کے لئے پچاس فی صد نصابی بوجھ کم کئے جانے کی تجویز پیش کی گئی تھی-لیکن اب اس پر عمل درآمد کے جو اقدامات کئے جا رہے ہیں وہ نیت و مقاصد سے متعلق شک و شبہات پیدا کرتے ہیں-سال ۲۰۲۳ ء سے سی بی ایس ای بارہویں جماعت کے تاریخ و سیاسیات کے نصاب میں جو تبدیلی کی گئی وہ اس طرح ہے-
بارہویں جماعت میں تاریخ کی تین کتابیں پڑھائی جاتی ہیں- دوسری کتاب سے جو موضوعات ہٹاۓ گئے ان میں تاریخ کا وہ دور ہے جو بابر کی ہندوستان آمد ۱۵۲۰ء سے شروع ہوتا ہے- مشہور ماہر تاریخ عرفان حبیب نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ “اس طرح پورے دو سو سال کی تاریخ کو غائب کرنے کی کوشش کی گئی ہے- اور یہ تاریخ کا مطالعہ کرنے والے طلبا ء کی حق تلفی کے مترادف ہے- مغلوں کی تاریخ کے مطالعے کے بغیرہندوستان کی تہذیب و تمدن اور یادگار کو جاننا ممکن ہی نہیں-شیواجی، مہارانا پرتاب اور دیگر ہندوستانی راجاؤں کی تاریخ مغلوں کی تاریخ کے بغیر کیسے پڑھائی جا سکتی ہے-؟شیواجی کے کارنامے اورنگ زیب کے تذکرے کے بغیر بیان نہیں کئے جاسکتے -
ہلدی گھاٹی کی لڑائی کا ذکر اکبر کے بغیر نہیں ہو سکتا-” بارہویں جماعت کے سیاست کے نصاب میں جن نکات کو ہٹایا گیا ہے ان میں گجرات فسادات سے جڑے موضوعات جیسے قومی انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ اور اٹل بہاری واجپائی کی نریندر مودی کو راج دھرم نبھانے کی نصیحت شامل ہے- گاندھی جی کے قتل سے متعلق تاریخ کو نئے نظریات کے ساتھ پیش کیا گیا ہے- مذکورہ تمام نکات کس سوچ اور منصوبے کے تحت نصاب سے ہٹائے گئے ہیں با آسانی سمجھا جا سکتا ہے- دلچسپ ہے کہ اندرا گاندھی کے دور حکومت میں لگائی گئی ایمرجنسی کا واقعہ بھی اب نئے نصاب میں شامل نہیں ہے-
اسے سمجھنے کی ضرورت ہے- مبصرین موجودہ سیاسی ماحول کا کہیں نہ کہیں ایمرجنسی سے موازنہ کرتے ہیں- جب ایک طالب علم ایمرجنسی کے واقعے کا مطالعہ کرتا ہے تو ان حالات کا سامنا کرتے ہوئے جمہوریت کے بچائے رکھنے کے لئے کیا کوششیں کی گئیں اور اس کے کیا نتائج ہوئے اسے بھی سمجھنے کی کوشش ہوتی ہے-موجودہ نسل ان نظریات سے جس قدر لاعلم رہے موجودہ سیاسی نظام کے لئے اتنا بہتر ہے- یہاں سی بی ایس سی کے ڈائریکٹر دنیش پرساد سکلانی کا بیان بڑا دلچسپ ہے -
ان کا کہنا ہے کہ کوو ڈ کے دوران جو حالات پیدا ہوئے اس کے نتیجے میں طلبا ء کی ذہنی کیفیت کی بنیاد پر نصاب میں یہ تبدیلی ناگزیز تھی-“ ۲۰۲۲ء میں جب نئی تعلیمی پالیسی کا اعلان کیا گیا اس میں اس بات کا خاص خیال رکھا گیا تھا کہ طلبا ء کے اندر تنقیدی و تخلیقی صلاحیت پیدا کی جائے- اور جب تک طلبا ء مثبت و منفی ، اچھے و برے، صحیح و غلط اور حق و باطل سے روبرو نہیں ہوں گے ان میں یہ صلاحیتیں پروان چڑھنا ممکن نہیں-
یہ سچ ہے کہ کم عمر طلبا ء کے ناپختہ ذہنوں میں جن نظریات و سوچ کا بیج بو دیا جاتا ہے اسی بنیاد پر ان کی شخصیت تشکیل پاتی ہے- لیکن کیا اسکو لی نصاب میں تبدیلی تاریخ کو بدل سکتی ہے؟
یہاں بالی ووڈ میں بنائی جا رہی” مضحکہ خیز “ تاریخی فلموں کا ذکر بھی بے جا نہیں ہوگا۔ تاریخ کو توڑ مروڑ کر انٹرٹینمنٹ اور محض ایک طرفہ بہادری پیش کرنے کے مقصد سے جھ کہانیاں اور کردار فلموں میں پیش کرنے سلسلہ شروع ہو گیا ہے- ان حالات میں بالخصوص اساتذہ کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ ہم اپنی طلباء کو تاریخی کتب ، روداد اور سوانح حیات وغیرہ کے مطالعے کی ترغیب دیں - ماہرین تاریخ کے ذریعے تحریر کی گئیں سیکڑوں کتابیں عوامی و نجی کتب خانوں میں موجود ہیں- اس ڈیجیٹل دور میں تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے قاری کے لئے حقائق کی روشنی میں تاریخ کا مطالعہ کرنا بہت مشکل نہیں- ہاں لیکن جس منصوبہ بندی کے ساتھ سماج کے ہر شعبے میں تبدیلی لانے کی کوشش ہو رہی ہے ایک سیکولر ذہن رکھنے والے شہری کا اپنے اور آنے والی نسل کے مستقبل سے متعلق فکر مند ہونا لازمی ہے
مٹتی نہیں تاریخ سے کوئی بھی عبارت
.تاریخ لکھے گی کہ لکھا کاٹ رہے ہیں