کتابوں کے تعلق سے عام طور پر ہمارے یہاں یہ بات مشہور ہے کہ ٹیکنالوجی نے مطالعے کا شوق کم کردیا ہے اور اب لوگ صرف سوشل میڈیا پر ویڈیوز ہی دیکھ رہے ہیں کتابیں نہیں پڑھ رہے ہیں۔ اگرچہ یہ بات عام مشاہدے کے بھی خلاف ہے لیکن اعداد و شمار اور حقائق سے جو تفصیل سامنے آتی ہے وہ انتہائی چشم کشا ہے۔
یونیسکوکو کی رپورٹ کے مطابق 1950 میں دنیا بھر میں دولاکھ پچہتر ہزار نئی کتابیں شائع ہوئی تھیں جو 1980میں بڑھ کر چھ لاکھ ستر ہزار ہوگئیں۔ اس تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا اورگذشتہ سال یعنی 2021 میں دنیا میں چالیس لاکھ نئی کتابیں شائع ہوئی ہیں۔
گوگل نے بارہ سال پہلے دنیا میں موجود ساری قدیم و جدید کتابوں کی معلومات جمع کرنے کی ایک مہم شروع کی تھی۔
سن 2010ء میں اس کی شائع کردہ رپورٹ کے مطابق دنیا میں انسانی تاریخ میں اب تک لکھی گئی وہ تمام کتابیں جو اس وقت دستیاب تھیں اور گوگل جمع کرسکا تھا، ان کی مجموعی تعداد تیرہ کروڑ (متعین تعداد 12 کروڑ 98 لاکھ 64 ہزار آٹھ سو اسی) تھی۔
گویا بنی نوع انسان کی ہزاروں سال کی تاریخ میں مجموعی طور پر جتنی کتابیں لکھی گئیں اس کا بتیسواں حصہ صرف ایک سال یعنی گذشتہ سال میں شائع ہوگیا۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کتابیں لکھنے اور پڑھنے کا شوق اور کتابوں کا چلن نہ صرف بڑھ رہا ہے بلکہ بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
اس وقت کتابوں کی انڈسٹری کی عالمی ویلیو تقریباً 142 بلین ڈالر ہے۔ یعنی دنیا جتنا سونے کے زیورات (180بلین ڈالر) پر خرچ کرتی ہے اس سے کچھ ہی کم کتابوں پر خرچ کرتی ہے۔
یہ کتابیں صرف بوڑھے لوگ نہیں پڑھ رہے ہیں بلکہ رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ کتابوں کی مارکیٹ میں سب سے تیزی سے ترقی کرنے والا ذیلی سیکٹر *بچوں کی کتابیں* ہیں۔
یہ اعداد و شمار عالمی اوسط سے متعلق ہیں جن میں پس ماندہ اور غیرترقی یافتہ ممالک بھی شامل ہیں۔ ترقی یافتہ معاشروں میں کتابوں پر خرچ کا تناسب تو اور زیادہ ہے۔
اس صورت حال میں یہ کہنا کہ دنیا میں مطالعے کا شوق کم ہورہا ہے، کتنی خلاف واقعہ اور مضحکہ خیز بات ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم پیچھے ہوگئے ہیں، ساری دنیا پیچھے نہیں ہوئی ہے۔
(ماہنامہ زندگیءنو ،ص: 10،11،اپریل 2023)