"ایک پرائیویٹ شپنگ کمپنی کی شپ سے ایک غیر قانونی ٹریفکنگ ہونے والی ہے ۔ کوسٹ گارڈز نیوی افسیران کی منہ بھرائی ہوچکی ہے۔ سیاست میں کچھ بھی ناممکن نہیں بڑی کتی چیز ہے" کرنل فریدی اپنی بہترین ٹیم سے مخاطب تھا۔ میرے انفارمر نے بتایا کہ اس میں "بڑے ہاتھ "بھی شامل ہیں۔ ہم دو ٹیمیں بنائیں گے ایک بحری راستے سے دوسری ساحلی راستے سے ایک ساتھ ہلّہ بولے گی۔ پھر وہ انسپکڑیس ریکھا سے مخاطب ہوا۔ "ریکھا تم اور حمید ہیلی کاپڑ سے جہاز پر دھویں کے بم پھینکو گے۔ جہاز کے عرشے پر جو بھی انسانی وجود نظر آئے اسے صرف شوٹ کرنا ہے" پھر اس نے تمام لوگوں میں غیر معمولی ساخت کے ریوالور تقسیم کئے۔ حمید چونک گیا کیونکہ وہ ان ریوالوروں کو پہچانتا تھا۔ "زمین کے بادل" والے کیس میں فریدی نے انہیں اڑن طشتری کے اسلحہ روم سے حاصل کئے تھے۔ ان کی گولیاں شکار کے جسم میں جاکر پھٹ جاتی تھی۔ جسم میں ایک غار سا بن جاتا تھا۔ کرنل صاحب، ارادے کیا ہیں؟ حمید نے پوچھا۔
" ہمیں انتہائی سفاک مجرموں کا سامنا ہے۔ ان کی سنگ دلی کا تم اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔ " فریدی بولا " جو بھی نظر آئے صرف فائر کرنا ہے۔ سارجنٹ جاوید کوئی سوال؟ جاوید نے اثبات میں سر ہلایا۔ آخر وہ کیا لے جانا چاہتے ہیں سر؟ جواب میں فریدی نے کہا" بہت جلد دیکھو گے" حمید نے فریدی کی آنکھوں میں وہی سفّاکی دیکھیں جب وہ مجرموں کو سزا دینے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔
رات سیاہ تھی، غیر معمولی ٹھنڈ تھی، ستارے بھی کپکپارہے تھے۔ بحری اور بری ٹیمیں شپ تک پہنچ چکی تھی۔ حمید اور ریکھا نوائز لیس ہیلی کاپٹر سے شپ کے عرشے پر کودے کئی طرف سے گولیاں چلیں دونوں نے بلٹ پروف سوٹ پہن رکھے تھے اور آنکھوں پر انفرار یڑ چشمے چڑھے ہوئے تھے۔ جس میں گھپ اندھیرے میں بھی دکھائی دیتا تھا۔ " گولی چلاؤ بیوقوفو_" اسے فریدی کی سرگوشی سنائی دی۔ نہ جانے وہ کب عقب سے آ گیا تھا۔ فریدی نے لگاتار فائرنگ شروع کی، حملہ آور خاک و خون میں تڑپنے لگے وہ حمید اور ریکھا کو کور کر رہا رتھا۔ جہاز کا عرشہ خون سے تر ہو چلا تھا۔
" درندہ مت بنیئے " حمید نے کپکپا کرکہا۔ "تو اب مجھے انسانیت کا درس دو گے؟ " فریدی فائرنگ کرتا ہوا بولا۔ ریکھا بھی فریدی کی سفاکی پر حیران تھی۔ وہ میدان صاف دیکھ کر جہاز کے تہہ خانے کے زینے اترنے لگا۔ ادھر رمیش ،جگدیش اور جاوید ہچکچا ہچکچا کر فائرنگ کر رہے تھے۔ گولیاں کھانے والے ڈھیر ہوتے گئے۔ اگر وہ فائرنگ نہ کرتے تو خود دشمن کا شکار بن جاتے۔ فریدی نے بیسمنٹ میں پہنچ کر جب لائٹ آن کی تو لوگوں کے دل اچھل کر حلق میں آ گئے۔ چھوٹے بڑے کیج تھے جن میں نوزائیدہ بچے پنگوڑے میں پڑے بوتلوں سے دودھ پی رہے تھے۔ آنکھیں بند تھیں۔ عجیب بات یہ تھی کہ کوئی بھی بچہ رو نہیں رہا تھا جبکہ شیر خوار بچوں کی نفسیات ہے رونا چلانا سب لوگ دنگ تھے۔ " یہ سب کیا ہے؟ " حمید کے منہ سے نکلا۔ " بچے اسمگل کیے جارہے تھے۔ " فریدی نے جواب دیا۔ برانڈی ملے دودھ پلا کر انہیں مدہوش رکھا جاتا ہے تاکہ شورشرابے سے کھیل نہ بگڑ جائے۔ میں کئی برسوں سے بچوں کی اسمگلنگ پر کام کر رہا تھا۔ آو ابھی اور بھی تماشہ دیکھنا ہے۔
اچانک زینوں سے دھڑ دھڑاتے اور فائرنگ کرتے کچھ لوگ آئے۔ اس بار فریدی کے ساتھ سارے لوگوں کے ریوالور گرجے اور وہاں لاشیں بچھ گئیں۔ دوسرے کمرے میں بڑے پنجروں میں گھٹنوں پر چلنے والے اور پاؤں چلنے والے بچے زنجیروں میں جکڑے ملے۔ وہ بھی مدہوش تھے اس لئے رو چلا نہیں رہے تھے۔ مگر بچوں کی آنکھوں میں وہ درد تھا کے ریکھا کپکپا کر رہ گئ۔ کچھ بچوں کے سامنے کھانے کی پلیٹیں تھیں۔ کچھ بچوں کے ہاتھ میں آئس کریم کون تھیں۔ بچوں کے پاؤں میں زنجیریں تھی۔ تاکہ وہ زیادہ دور نہ جا سکیں۔ جو لوگ فریدی کے اقدامات پر تنقید کر رہے تھے اب پوری طرح تائید میں نظر آ رہے تھے۔ " میدان صاف ہے سر" فریدی موبائل پر ویڈیو کالنگ کر رہا تھا۔ بچے میرے پاس محفوظ ہیں۔ میں ویڈیو سینڈ کر رہا ہوں۔ مشن سے پہلے میں نے مجرموں کے بایوڈاٹا سینڈ کر دیے تھے۔ سر اب بڑا ایکشن لینا ہی پڑے گا۔ اب یہ آپ کو طے کرنا ہوگا کہ پولیٹکل فنڈنگ کے آگے سرکار نہیں جھکے گی۔ قانون کو اپنا کام کرنا چاہیے۔ کرنل فریدی کو اب کوئی نہیں روک سکے گا سر- معاملہ انسانی بچوں کا ہے خنزیر کے بچوں کا نہیں "
کچھ دیر بعد امدادی ٹیم ہیلی کاپٹر لئے آگئی۔ سارے بچے بحفاظت لے جائے گئے۔ چند گرفتاریاں بھی ہوئیں۔ کرنل فریدی اپنی ٹیم سے مخاطب ہوا۔ تمام لوگوں کے چہرےچہرے فق تھے۔ " دنیا میں سالانہ لاکھوں بچے گم ہوتے ہیں۔ خود ہمارے ملک میں دیڑھ سے دو لاکھ بچے گم ہوتے ہیں۔ یہ دور مہاجرت کا ہے، مہاجرین کے بچے اُچک لیے جاتے ہیں۔ اسکولوں، ہسپتالوں،
گلی محلوں سے ، نرسنگ ہومز سے بچے گم ہو جاتے ہیں۔ بچوں کی خرید و فروخت منشیات سے بڑا دھندہ ہے۔ آن لائن ڈیلیوری بھی ہوتی ہے۔ اربوں ڈالروں کی انڈسٹری ہے۔ اس میں بزنس مین، سیاست دان، حکومت اور انڈر ورلڈ، پولیس اور اکثر فوجی ملوث ہوتے ہیں۔ تم لوگوں نے دیکھا، مرغی کے چوزوں کی طرح انسانی بچوں کی فارمنگ ہوتی ہے۔ انہیں شیر خوارگی سے نشے کا عادی بنایا جاتا ہے۔ ابھی دجال ظاہر نہیں ہوا لیکن ان کے لاکھوں ایجنٹ انسانوں کا عرصۂ حیات تنگ کیے ہوئے ہیں۔ " کروڑوں بچوں کے اغوا کے مقاصد؟ " حمید نے پوچھنا چاہا۔ " سنتے جاؤ -بات پوری نہیں ہوگی" فریدی اس کے ٹوکنے پر چڑ گیا۔ سروگیشن سے بھی بچے پیدا کروائے جاتے ہیں اور انہیں پورن انڈسٹری کی آگ میں جھونک دیا جاتا ہے۔ یہ فرعونی دور ہے۔ یاد ہے بحرالکاہل کے برمودا تکون کے اطراف میں بے شمار بچوں کی لاشیں ملی تھیں؟ ان کے دماغ غائب تھے۔ آج سب سے زیادہ تجربات انسانی دماغ اور اس کی کارکردگی پر ہو رہے ہیں۔ لیکن یہ خبر خبروں کے مزار میں دفن کر دی گئی۔ فرعون کے ایسے بندے بھی اس دنیا میں بستے ہیں جنھیں تفریحاً قتل کرنے کا شوق ہے۔ دوڑنے والے بچوں کی یہ منہ مانگی قیمتیں دیتے ہیں۔ ان فرعونوں کی اپنی پرائیویٹ اسٹیٹیں ہے جہاں دنیا کا کوئی قانون کام نہیں کر سکتا۔ وہاں وہ ان بچوں کا جنگلی جانوروں کی طرح شکار کرتے ہیں۔ گولیاں مار کر، تلواروں سے کاٹ کر، قیمہ کرنے والی مشین میں زندہ بچوں کو ڈال کر ان کے تڑپنے سے محظوظ ہوتے ہیں۔ " "یو-این-او- کا اسمیں کیا دفاعی رول ہے؟" ریکھا نے پوچھا " یو-این-او "فریدی نے زہر خند کے ساتھ کہا۔ جس کی بنیادوں میں انسانی خون سے گارے بنائے گئے؟ یہ ظلم ہمیں انفرادی اور اجتماعی کوششوں سے ختم کرنے ہوں گے۔ قارونی مالیات سے مقابلہ ہے۔ فرعون ہارا تھا تو انہیں بھی ہارنا پڑے گا۔ یہ مائنڈ وار ہے۔ ہمیں یہ وار جیتنی ہیں۔ کمرے میں صرف سانسوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔