کھام گاؤں:13/نومبر (واثق نوید) کہا جاتا ہے کہ زبانیں مختلف سماجوں کو قریب لانے کا کام کرتی ہیں ۔ ادب بھی زبان ہی میں تخلیق کیا جاتا ہے ۔ عام طور پر کسی ایک زبان کو بولنے والوں کے لیے کوئی خاص زبان مختص ہو جاتی ہے لیکن دراصل زبان و ادب پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہوتی ۔ پوسد تحصیل سے بیس کلومیٹر دور ساؤنا نامی ایک چھوٹے سے گاؤں سے تعلق رکھنے والے عابد شیخ پر یہ بیان پورا اترتا ہے ۔ عابد شیخ کی تعلیم مراٹھی زبان میں ہوئی اور اپنی ذات کے اظہار کے لیے بھی انہوں نے مراٹھی شاعری کو ہی چنا ۔
وہ مراٹھی شاعری کے ذریعے اور تمام تر مراٹھی قومی ٹی وی چینلوں کے توسط سے مہاراشٹر کے دور دراز گوشوں تک اپنی رسائی بنا چکے ہیں ۔ حال ہی میں عابد شیخ کی ایک مراٹھی غزل بابا صاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونیورسٹی کے مراٹھی ادب کے گریجویشن (تمام فیکلٹیز) کے نصاب میں شامل کی گئی ہے جو ایک بڑے اعزاز کی بات ہے ۔
اسی ضمن میں غلام نبی آزاد اردو ڈی ایڈ کالج پوسد میں ایک عظیم الشان اعزازی تقریب منعقد کی گئی ۔ اس تقریب کی صدارت کالج کے پرنسپل خان حسنین عاقب نے کی جب کہ اعزازی شخصیت کے طور پر عابد شیخ موجود تھے ۔ دیگر شرکاء میں سابق پرنسپل شہاب الدین شیخ، وائس پرنسپل غلام احمد خان اور سینئر لکچرر نثار احمد خان موجود تھے ۔
تقریب میں سب سے پہلے عابد شیخ کی گل پوشی کی گئی اور انہیں چند تحائف سے نوازا گیا ۔ عابد شیخ نے اپنی تقریر میں نامساعد حالات کے باوجود اپنے تعلیمی اور شعری سفر کو جاری رکھنے کا تجربہ طلبہ سے بیان کیا اور طلبہ کے اصرار پر اپنی مراٹھی غزل کے ساتھ ساتھ ہندی اشعار سنا کر خوب داد وصول کی ۔
شہاب الدین شیخ نے عابد شیخ کو سماجی اداروں سے جڑ کر ادبی کام کرنے کا مشورہ دیا ۔
غلام احمد خان نے اپنی تقریر کے دوران طلبہ سے تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے ادبی ذوق کی آبیاری کرنے کی تلقین کی ۔ نثار احمد خان نے عابد شیخ کی اس کامیابی کو طلبہ کے لیے ایک مثالی کارنامہ قرار دیا ۔ تقریب کے صدر اور کالج کے پرنسپل خان حسنین عاقب نے عابد شیخ کے شعری سفر پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ عابد شیخ کی مراٹھی غزل اردو اور مراٹھی کے باہمی تہذیبی رشتے کی عکاسی کرتی ہے اور اس کی لطافت اردو غزل سے کشید کی گئی معلوم ہوتی ہے ۔ طلبہ نے عابد شیخ سے نہایت اہم سوالات کئے جن کے تشفی بخش جوابات انہیں حاصل ہوئے ۔ تقریب کے اختتام پر تنزیلہ تبسم نے منتخب اشعار سنائے ۔
مرزا منہاج یونس بیگ نے اظہار تشکر کیا ۔ یہ تقریب طلبہ کے لیے ایک یادگار تجربہ تھا ۔