"عقیل خان بیاولی: علم دوست، انسان دوست شخصیت" مشتاق بہشتی۔جلگاؤں ۔ ایم اے (اردو، علمِ سیاسیات)، بی ایڈ۔
Author -
personحاجی شاھد انجم
مئی 30, 2025
0
share
31 مئ 2025 بروز ہفتہ کو علاقہ خاندیش کے سئنیڑ صحافی عقیل خان بیاولی جلگاؤں کی طویل صحافتی خدمات کا اعتراف کرتے ہوے انہیں "سید قاسم جلگانوی ایوارڈ"سے نوازہ جارہا ہے اس موقع پر مشتاق بہشتی جلگاؤں کے تاثرات ۔ کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جن کی موجودگی محض ایک فرد کی نہیں بلکہ ایک ادارے، ایک تحریک، ایک جذبے اور ایک نظریے کی علامت ہوتی ہے۔ عقیل خان بیاولی کا شمار بھی ایسی ہی نادر روزگار شخصیات میں ہوتا ہے، جنہوں نے اپنی زندگی کو علم، ادب، انسانیت اور اردو زبان کی ترویج و ترقی کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ ابتداء ایک موقع سے... یہ جولائی 2009 کی ایک سرد شام تھی۔ میں اپنی دکان پر بیٹھا ہوا تھا اور حسبِ معمول اخبار کے اوراق الٹ پلٹ رہا تھا۔ نظر ایک اشتہار پر ٹھہر گئی۔—ڈاکٹر شاہین قاضی گرلز جونیئر کالج میں جزوقتی اُستاد کی اسامی خالی تھی۔ "استاد کی ضرورت ہے"،،یہ الفاظ میرے لیے صرف ایک نوکری کا نہیں، بلکہ علم کی دنیا میں قدم رکھنے کا دروازہ ثابت ہوئے۔ میں نے انٹرویو دیا اور خوش نصیبی سے منتخب ہوا۔ یہیں میری پہلی ملاقات اُن شخصیات سے ہوئی جنہوں نے میرے تعلیمی و ادبی سفر میں رہنمائی کے چراغ جلائے: آصف شاہ سر، محترمہ نسیم بانو سید، مرحوم خالد علی سید، مشتاق کریمی سر اور سب سے بڑھ کر عقیل خان بیاولی سر۔ قربت کا سفر اور پہچان۔ چونکہ اس وقت جونیئر کالج کے شعبے میں مجھ سے پہلے صرف عقیل سر ہی تدریس فرما رہے تھے، اس لیے ہمارے درمیان جلد ہی ایک قلبی و ذہنی قربت پیدا ہو گئی۔ ٹائم ٹیبل کا فرق بھی ایسا تھا کہ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارنے کے کئی مواقع ملے۔ آہستہ آہستہ مجھے اندازہ ہوا کہ عقیل سر صرف استاد نہیں، ایک ادیب، صحافی، افسانہ نگار، تنظیمی رہنما اور حقیقی معنوں میں علم دوست، انسان دوست شخصیت ہیں۔ ان کی گفتگو میں ایسا تاثر ہوتا گویا علم کا ایک بہتا ہوا چشمہ ہو۔ اردو، ہندی، مراٹھی، اور انگریزی زبان پر عبور رکھنے والے عقیل سر نے صحافت کی ابتدا اردو اخبارات سے کی، مگر ان کا قلم ہندی، مراٹھی اور انگریزی صحافت میں بھی روشن رہا۔ ان کی تحریریں شعور بیدار کرتی ہیں، سوچ کو جِلا بخشتی ہیں۔ ایک امتحان، ایک نئی زندگی۔ زندگی ہمیشہ ہموار راستوں کا نام نہیں۔ سال 2016 میں ایک نیا موڑ آیا۔ کینسر جیسی مہلک بیماری نے آپ کو آ لیا، لیکن اللہ الحکیم نے آپ کو شفا عطا کی۔ شفا کے بعد وہی جوش، وہی لگن، وہی خدمت کا جذبہ لے کر آپ دوبارہ اردو ادب، صحافت اور تعلیمی خدمات کی جانب لوٹ آئے۔ سبکدوشی نہیں،ایک نئی ابتداء اگرچہ آپ اردو گرلز ہائی اسکول اور ڈاکٹر شاہین قاضی گرلز کالج سے پرنسپل کے عہدے سے سبکدوش ہوئے، لیکن یہ سبکدوشی دراصل ایک نئی شروعات تھی۔ آپ نے "خاندیش اردو کونسل" جیسے ادارے کی بنیاد رکھ کر اردو زبان و ادب کے فروغ کا ایک باقاعدہ پلیٹ فارم مہیا کیا۔ اسکولوں، لائبریریوں، ادبی انجمنوں کو حوصلہ دیا، رہنمائی کی اور اپنی حیثیت کے مطابق ہر ممکن تعاون کیا۔ نرم گفتار، شفاف کردار۔سب سے بڑھ کر آپ کی وہ خوبی جو ہمیں بے حد متاثر کرتی ہے، وہ یہ کہ آپ نے کسی بھی عہدے یا اختیار کو کبھی اپنی انا یا رعب کے لیے استعمال نہیں کیا۔ نرم گفتار، شفاف کردار، اور سب کی فکر رکھنے والا دل—یہ سب آپ کی شخصیت کے ایسے پہلو ہیں جو آج کے دور میں نایاب ہوتے جا رہے ہیں۔ دعا اور اعتراف۔ ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت، خوشی، اور مزید علم و ادب کی خدمت کے مواقع عطا فرمائے، تاکہ آپ کی طرح ہم بھی ادب، تدریس اور انسان دوستی کے میدان میں کچھ کردار ادا کر سکیں۔ آپ ہمارے لیے نہ صرف استاد بلکہ رول ماڈل ہیں۔