جانے والے چلے جاتے ہیں مگر اپنے پیچھے نقوشِ قدم چھوڑ کر جاتے ہیں، ان نقوشِ قدم کو اختیار کرنا بعد والوں کے لیے کامیابی کی ضمانت ہے،
حضرت مولانا غلام محمد وستانوی صاحب نے بھی تعلیمی، رفاہی اور سماجی خدمات کے شعبے میں نقوشِ قدم اپنے بعد والوں کے لیے چھوڑے ہیں،
ان کو زندہ و تابندہ رکھنا ہماری بنیادی ذمہ داری ہے، ان بامقصد جملوں کا اظہار حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی صاحب (نائب صدر وفاق المدارس والمکاتب، مالیگاؤں) نے اکبری مسجد (محوی نگر) میں منعقدہ تعزیتی نشست میں کیا،
قبل ازیں وفاق المدارس والمکاتب کے بانی و جنرل سکریٹری حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب دامت برکاتہم نے اظہار خیال کرتے ہوئے یہ فرمایا کہ مولانا وستانوی مرحوم ایک عظیم قرآنی شخصیت تھے،
بڑوں کی خدمت، چھوٹوں پر شفقت، وسعت فکر، جامعیت، انابت و رجوع الی اللہ ان کے خصوصی اوصاف تھے،
قیام مساجد کے اعتبار سے وہ عالمگیر ثانی اور فنِ تعمیر کی مہارت کے لحاظ سے وہ علماء میں شاہجہاں تھے،
انھوں نے خدمت قرآنی کا دائرہ اس قدر وسیع کیا کہ اس باب میں پورے ملک میں ان کا کوئی ہمسر نہیں،
معہد ملت کی نمائندگی کرتے ہوئے مفتی محمد حسنین محفوظ نعمانی صاحب نے فرمایا کہ مولانا غلام محمد وستانوی مرحوم باکمال انسانوں کے قدردان تھے،
مختلف مقامات سے منتخب کرکے انھوں نے اصحابِ فضل وکمال کو اپنے جامعہ میں جمع کیا تھا،
یہ ان کی جوہر شناسی کی واضح دلیل ہے،
جامعہ ابوالحسن علی ندوی کی نمائندگی کرتے ہوئے مولانا جمال عارف ندوی صاحب نے اپنے خطاب میں کہا کہ مولانا مرحوم مدارس کے بڑے محسن تھے.
اور خود ہمارے جامعہ ابوالحسن پر بھی ان کے احسانات ہیں، کڑے وقت میں انھوں نے جامعہ کی مالی مدد کی اور برابر رہنمائی کا فریضہ انجام دیا،
وفاق المکاتب کے صدر اور جامع مسجد کے نائب امام مولانا نعیم الظفر نعمانی ندوی نے اپنی تقریر میں پرانی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ میرے والد مرحوم حضرت مولانا محمد حنیف ملی صاحب سے بھی حضرت وستانوی کے قریبی مراسم اور تعلقات تھے،
والد صاحب کو انھوں نے جامعہ میں تدریس کی پیش کش بھی کی جسے والد صاحب نے قبول نہیں فرمایا
مگر حضرت وستانوی مرحوم کی دعوت پر بار بار جامعہ اکل کوا تشریف لے جاتے رہے اور جامعہ کے ابتدائی دور میں اپنے مفید اور گراں قدر مشوروں سے نوازتے رہے،
مدرسہ بیت العلوم کی نمائندگی کرتے ہوئے حضرت مولانا سراج احمد قاسمی (نائب صدر وفاق المدارس والمکاتب) نے مولانا مرحوم کے وصال کو بڑا سانحہ قرار دیتے ہوئے یہ فرمایا کہ ان کی رحلت سے ملت اسلامیہ ایک قابلِ قدر اور لائقِ احترام ہستی سے محروم ہوگئی اور ان کا اٹھ جانا قحط الرجال کے اس دور میں بہت بڑا نقصان ہے،
ان حضرات علماء کے علاوہ دارالفلاح یتیم خانہ کی نمائندگی کرتے ہوئے جناب مولانا خالد اختر رشیدی صاحب، مدرسہ خلیفہ اول کی نمائندگی کرتے ہوئے جناب مولانا شفیق الرحمن فلاحی صاحب، مدرسہ ابو عبیدہ بن الجراح کی نمائندگی کرتے ہوئے جناب مولانا عبدالصمد اشاعتی صاحب، جمعیت علماء (سلیمانی چوک) کی نمائندگی کرتے ہوئے جناب مولانا جمال ناصر صاحب، اسی طرح جناب مولانا امین الجبار ملی صاحب(نائب صدر وفاق المکاتب) جناب مولانا نشاط مظاہری صاحب وغیرہ نے بھی اظہار خیال فرمایا اور حضرت وستانوی مرحوم کی رحلت پر رنج و غم کا اظہار کیا اور حضرت مرحوم کے اہل خانہ اور متعلقین و متوسلین اور تلامذہ کی خدمت میں تعزیت مسنونہ پیش کی،
اس تعزیتی نشست کا اہتمام و انتظام وفاق المدارس والمكاتب کی جانب سے کیا گیا تھا.
نیز اسے کامیاب بنانے کے لیے مدرسہ ریاض الجنۃ کے ناظم حافظ جمیل اشاعتی صاحب اور وہاں کے اساتذہ کرام نے خصوصی تعاون کیا،
پروگرام کی ابتداء حافظ ایان خان یونس خان (متعلم ریاض الجنۃ) اور حافظ ذاکر حسین نسیم احمد (متعلم ریاض الجنۃ) کی تلاوت سے ہوئی.
اسی طرح حافظ معاذ احمد ریاضی نے نعت شریف پیش کی، جناب مولانا عمران اسجد ندوی صاحب نے اس پورے تعزیتی اجلاس کی کارروائی چلائی، حضرت مولانا محمد ادریس عقیل ملی قاسمی صاحب بھی پروگرام کے ابتدائی حصے میں تشریف فرما ہوئے اور انھوں نے اپنی نیک خواہشات اور دعاؤں سے نوازا نیز حضرت وستانوی مرحوم کے لیے دعائے مغفرت اور رفع درجات فرمائی،
حضرت کے تشریف لے جانے کے بعد صدارت کا فریضہ حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی نے انجام دیا،
دیر رات کو انہی کی دعا پر یہ تعزیتی اجلاس بحسن و خوبی اختتام پذیر ہوا، مولوی عمران ندوی (مدرس مدرسہ ریاض الجنۃ) نے حافظ منیر اشاعتی صاحب کا پیغام اجلاس کے آخر میں پڑھ کر سنایا،
وفاق المدارس والمکاتب کے ذمہ داران و عہدیداران اور ارکان نے خاص طریقے پر شرکت فرمائی -_