ابنِ صفی ریسرچ فاؤنڈیشن کی پیشکش ابنِ صفی کی دنیا فارچون ( Fortune ) کہانی نمبر 19 ابنِ شفیع
Author -
personحاجی شاھد انجم
نومبر 11, 2025
0
share
موبائیل پر بار بار رنگ ہورہی تھی۔ حمید گھوڑے بیچ کر سو رہا تھا۔ چُھٹیاں تھیں۔ حمید کی راتیں ہوٹلوں، کلبوں میں گزرتیں اور دن ذیادہ تر سونے میں۔ کرنل فریدی سائبر کرائم کی اسپیشل ٹیم کے ساتھ امریکہ کے دورے پر تھا۔ جب موبائیل کی رنگ کان پھاڑنے لگی تو تڑپ کر بستر سے اٹھا اور میز پر رکھا موبائیل اٹھالیا۔ کال ڈی آئی جی کی تھی۔ "کیپٹن حمید " ڈی آئی جی بولے "فوراً" فارچون انگلش میڈیم ہائی اسکول پہنچو۔ ایک ٹین ایجر اندھا دھند فائرنگ کر رہا ہے۔ ٹیچرز اور بچوں کی لاشیں گِرا رہا ہے۔ تمہیں کسی بھی حال میں خون خرابہ بند کروانا ہے۔ میڈیا کو کمپاونڈ میں آنے سے روکنے کی زمہ داری بھی تمہاری۔ ' ڈی آئی جی ایک ہی سانس میں بولتا چلا گیا۔ حمید نے جیسے تیسے کپڑے تبدیل کیے۔ ریوالور اپنے ہولسٹر میں ڈالا، موبائیل ہاتھ میں لیے گیرج کی طرف بھاگا۔ فارچون انگلش میڈیم یائی اسکول کے گیٹ سے داخل ہونے میں کافی دشواری پیش آئی۔ لائٹ اور کیمرے والے اندر گھسنے میں دھکّم پیل رہے تھے۔ پولیس والے بریکیٹ لگا کر انھیں روک رہے تھے۔ حمید انھیں ہدایتیں دیتا ہوا اسکول کے برآمدے میں پہنچا۔ وہاں قیامت خیز منظر تھا۔ بھگدڑ مچی ہوئی تھی۔ بچے دیوانوں کی طرح چنخے جارہے تھے۔ لیڈی ٹیچرز بوکھلاہٹ میں ایک دوسرے پر گِر رہی تھیں۔ فائرنگ کی آوازیں ایک کلاس روم سے آ رہی تھیں۔ حمید نے ایک ستون کی آڑ لے کر جھانکا۔فرش پر کئی لاشیں خاک و خون میں نہائی پڑی تھیں۔ نوعمر بچوں اور لیڈی ٹیچرز کی لاشیں۔ بچوں کے بستے تک خون سے تر تھے۔ کچھ لیڈی ٹیچرز دیوار سے لگی تھر تھر کانپ رہی تھیں۔ کلاس روم میں یوں داخل ہونا خطرے سے خالی نہیں تھا۔ اس نے ریوالور بردار ٹین ایجر کو دیکھ لیا جس کے دونوں ہاتھوں میں ریوالور تھے وہ چہرے دیکھ دیکھ کر فائر کر رہا تھا۔ گندی گالیاں بک رہا تھا۔ ایک لمحے کے لیے حمید پر بھی بوکھلاہٹ طاری ہوگئی۔ اُدھر جسے گولی نہیں بھی لگی غش کھا کر گِر رہے تھے۔ پھر اس نے تصور کیا کے ایسے حالات میں کرنل فریدی ہوتا تو کیا کرتا؟ فوراً سنبھل گیا۔ اس نے وہ ستون تلاش کیا جس پر 26 جنوری اور 15 اگست کو جھنڈا لہرایا جاتا تھا۔ خوش قسمتی سے وہ چھت سے ذیادہ دور نہیں تھا۔ وہ فوراً اس کے ذریعے چھت پر چڑھ گیا۔ روشن دان دھونڈنے میں ذیادہ دیر نہیں لگی۔ حمید روشن دان کے ذریعے اندر کودا۔ کمپاؤنڈ کے باہر میڈیا والوں نے اسے اپنے اپنے کیمروں میں زوم کیا۔ وہ ٹھیک فائرنگ کرنے والے لڑکے کے عقب میں کودا۔ اس سے پہلے لڑکا پیچھے پلٹا حمید اس پر جھپٹ پڑا۔ اس سے دونوں ریوالور چھین لئے اور جیب سے باریک نائیلون کی ڈوری نکالی اور دونوں ہاتھ اس کی پشت سے باندھ دیے۔ پھر حمید نے چاروں طرف نظریں ڈالی تو کانپ کر رہ گیا۔ پانچ لیڈی ٹیچرز اور باقی طالب علم کی خون میں لتھڑی لاشیں پڑی تھیں۔ تو گویا دونوں ریوالور خالی ہوچکے تھے۔ رونے پِٹنے کا وہ عالم تھا کہ چھت پھٹ پڑے۔ ادھر لڑکا زور زور سے چلا رہا تھا۔ "حرامزادو کہا تھا نا؟ مرڈالوں گا۔ اور مقتول لیڈی ٹیچرز کی لاشوں پر تھوکنے لگا۔ " میں نے وارنگ دی تھی چڑیلو۔ مگر تم باز نہ آئیں۔ وہ پرنسپال بچ گئی۔ کہاں ہے وہ کُتیا؟" اتنے میں کئی پولیس وین اور ایمبولینس اسکول کے کمپاؤنڈ میں داخل ہوئیں۔ حمید نے زابطے کی ساری کاروائی مکمل کیں۔ سارے شواہد اکھٹّا کیے، لاشیں اٹھوائیں۔ زخمیوں کو اسپتال بھیجا۔ اپنے موبائیل میں کرائم سین کی کئی زاویے سے تصویریں لیں۔ کچھ ضروری فون کال کیں۔ میڈیا کے چند نمائندوں کو بلا کر سرکاری بیان دیا۔ ساری کاروائیوں کے بعد ٹین ایجر کو لے کر پرنسپال کی آفس گیا، لڑکے کو ایک کرسی پر باندھ دیا۔ لڑکا اب سسک سسک کر رو رہا تھا۔ وہ حمید سے اپنی ماں کو بلوانے کی گزارش کر رہا تھا۔ پرنسپل شہناز شیخ نے حمید کو بتایا کہ لڑکے کا نام التجا حسین ہے۔ وہ ایک بن بیاہی ماں کی اولاد ہے۔ یعنی ایک سنگل مام۔ اس کا نام گل بانو ہے۔ حمید کی ایما پر گل بانو کو کر کے بلا گیا۔ جب وہ آئی تو جیسے اس پر دورہ پڑا گیا۔ آتے ہی وہ التجا حسین سے لپٹ پڑی۔ "اوہ میرے بچے یہ کیا کیا تم نے؟ مجھ سے بولا ہوتا میں کچھ نی کچھ کرتی۔ ارے کوئی کھولو میرے لال کو" وہ ہیسٹریائی انداز میں چینخی۔ "آفیسر پلیز پلیز۔ یہ انسان ہے جانور نہیں۔ " آپ بچے نے بارہ قتل کئے محترمہ " حمید نے سرد لہجے میں کہا" وہ تو ریوالور کی دونوں چیمبر خالی ہوگئے ورنہ یہاں اور بھی کئی لاشیں پڑی ہوتیں۔ "پھر بھی انسانیت بھی کوئی چیز ہے آفیسر۔ " گل بانو بولی۔ "کس انسانیت کی بات کرتی ہو مام؟ التجا حسین پھٹ پڑا۔ " میں لیو اِن ریلیشن شپ کا نتیجہ ہوں۔ یہاں اسکول میں مجھے حرام زادہ کہ کر چڑایا جاتا ہے۔ کلاس ٹیچر مجھ سے پوچھتی ہے او حرامزادے ہوم ورک کر کے لیا کہ نہیں؟ پرنسپل میڈم آفس میں بلا کر بولتی ہے "ابے او حرام زیادے تجھ میں تھوڑی سی بھی شرم ہو تو کل سے اسکول مت آنا۔ شریف طلبا پر برا اثر پڑتا ہے۔ سرپرست حضرات مجھ سے شکایت کرتے ہیں۔ " حمید نے گردن گھما کر پرنسپل شہناز کی طرف دیکھنے لگا۔ وہ نظروں کی تاب نہ لاکر اِدھراُدھر دیکھنے لگی۔ التجا حسین سسکنے لگا۔ کلاس روم میں مجھے کوئی اپنے پاس بیٹھے نہیں دیتا تھا۔ پوری کلاس مجھ سے نفرت کرتی تھی۔ آفیسر۔ رجسٹر میں میرے باپ کی جگہ میری ماں کا نام درج ہے۔ لوگ مجھ پر ہنستے تھے۔ " حمید اپنے پورے جسم میں سنسناہٹ محسوس کرنے لاگا۔ اسے اب اس بارہ لوگوں کے قتل پر ترس آنے لگا۔ " میرے بچے کا کیا بنے گا آفسیر؟ " گل بانو نے روتے ہوئے پوچھا۔ "گرفتار کر لیا گیا ہے۔ قانونی چارہ جُوئی ہوگی۔ کوئی قانون سے بلاتر نہیں۔ " حمید نے کہا۔ اصل گنہگار تم ہو۔ نکاح کی بجائے حرام رشتے نہ بناتی تو تمہارے جرم کی سزا تمہاری اولاد کو نہ ملتی۔ آخر عورت گھر سے قدم کیوں نکالتی ہے۔ " تم نے تو اسے اپنے شِکم سے ہی جڑ کٹا بنا دیا۔ دراصل اس کی سزا کی حق دار تو تم ہو۔ کل ایسے بچوں کی ایک فوج کھڑے ہونے والی ہے۔ چھر دنیا میں لاشیں ہی لاشیں بکھری پڑی ہونگی۔ " گل بانو بے بسی سے اپنے ہی گالوں پر تھپڑ مارنے لگی۔ حمید نے اس کے ہاتھ پکڑ لیے۔ حمید نے ڈی آئی جی کو ساری رپورٹ پیش کی۔ التجا حسین کو ریمانڈ ہوم روانہ کیا۔ اور دل گرفتہ واپس ہو رہا تھا کہ راستے میں کرنل فریدی کا فون آیا۔ "ویری گڈ۔ فرزند۔ مجھے تم پر ناز ہے۔ شاندار طریقے سے تم نے کیس ہینڈل کیا۔ ثابت ہوا تم بڑے با صلاحیت ہو۔ مگر وہ صلاحیتں میری غیر موجودگی میں بیدار ہوتی ہیں۔ جب فائل تیار ہوگی تو اس پر کپٹن حمید کا نام درج ہوگا۔ " حمید نے فریدی سے پوچھا صرف اس سوال کا جواب دیں کہ بڑوں کی سزا بے گناہ اولاد کیوں بھگتیں؟ میں جج ہوتا تو ساری سزائیں اس کی ماں کو سناتا۔ جواب میں فریدی نے بھی پوچھا۔ "کیا ٹریگر ماں نے دبایا تھا؟ " لڑکے نے بارہ قتل کئے سزا ماں تھوڑے ہی بھگتے گی۔ " وہ لڑکا ماں کو سزا دینے نکلا تھا خود ہی سزاوار ہوگیا۔ " اور کال ڈسکنیکٹ ہو چکی تھی۔