مسلم بچیوں کے ناجائز تعلقات اسباب و تدارک مفتی محمد رضا قادری رفاعی مرکزی خادم التدریس والافتاء الجامعۃ القادریہ نجم العلوم مالیگاؤں 8446974711
Author -
personحاجی شاھد انجم
دسمبر 04, 2025
0
share
دنیا خطرناک تیز رفتاری کے ساتھ بدل رہی ہے۔ تہذیبوں کی کشمکش، میڈیا کی یلغار، اور شوشل نیٹ ورکس کی چمک دمک نے ہماری نسلِ نو کے دل و دماغ پر ایسا دباؤ ڈالا ہے کہ حیا، عفت اور پاکیزگی جیسے الفاظ آہستہ آہستہ پردوں کے پیچھے دھکیل دیے گئے۔
افسوس کہ اس دہکتی دنیا کی تیز لپیٹ میں مسلم بچیاں بھی آگئیں، اور آج ہمارے سامنے ایک سنگین مسئلہ ’’ناجائز تعلقات کا بڑھ جانا‘‘ منہ پھاڑے کھڑا ہے۔
یہ صرف ایک سماجی خرابی نہیں۔ یہ ایک روحانی سانحہ ہے، امت کی بنیادوں میں دراڑ ڈال دینے والا زلزلہ ہے۔
جب ایک مسلم بیٹی اپنی عصمت پر پہرا نہ لگا سکے تو سمجھ لیجیے کہ گھر کا چراغ بجھنے کو ہے، قوم کی جھولی میں اندھیرے اترنے والے ہیں۔
اسباب ۔۔۔کہاں سے ٹوٹ رہی ہیں دیواریں؟ 1. اخلاقی تربیت کا کمزور ہونا
گھر وہ پہلا مدرسہ ہے جہاں ماں کی گود میں بچی حیا سیکھتی ہے، مگر آج ماں مصروف، باپ بے خبر اور گھر تربیت سے خالی ہوتے جا رہے ہیں۔
نتیجتاً بچیاں باہر کی دنیا سے اخلاق نہیں، فتنہ سیکھتی ہیں۔ 2. اسمارٹ فون اور سوشل میڈیا کی یلغار
اسکرین پر کھلنے والی چمکتی جھوٹی دنیا دلوں کو بہکا رہی ہے۔ انسٹاگرام، ریلس، ٹیلیگرام گروپس، خفیہ چیٹ رومز… تعلقات کی پہلی چنگاری اکثر موبائل کی اس چھوٹی اسکرین سے بھڑکتی ہے۔
والدین جب بچوں کو فون دیتے ہیں، دراصل وہ ان کے صاف ذہن میں ایک پورا جنگل بھی ساتھ تھما دیتے ہیں۔ 3. مخلوط ماحول اور بے پردگی
کالج، کوچنگ کلاسز، دفاتر اور حتیٰ کہ مذہبی تقریبات تک میں مخلوط ماحول عام ہوگیا ہے۔ حیا کی دیواریں گرنے لگتی ہیں، نظر کا تیر دل کو زخمی کرتا ہے اور تعلقات کا آغاز وہیں سے ہوجاتا ہے۔ 4. فلم، ڈرامہ اور ویب سیریز کا زہر
ہر اسکرین پر محبت، عشق، دوستی، بغاوت اور ’’اپنی مرضی کی زندگی‘‘ کا مسلسل پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔
یہ مواد ذہن میں ایسا فریب جگاتا ہے کہ بچی کو والدین کی نصیحتیں سخت اور گناہ کی راہیں آسان لگنے لگتی ہیں۔ 5. شادیوں میں بلاوجہ تاخیر
مہنگے جہیز، غیر ضروری رسومات اور والدین کی غیر حقیقی توقعات نے نکاح کو مشکل بنا دیا ہے۔
جب جائز رشتہ مشکل ہوجائے تو ناجائز راستے آسان لگنے لگتے ہیں۔ 6. دینی ماحول سے دوری
جب دل میں قرآن کی روشنی نہ ہو، جب سیرتِ فاطمہ کی خوشبو نہ ہو، جب دل میں نماز کا نور نہ ہو۔
تب خواہشات کا اندھیرا دل پر قبضہ کر لیتا ہے۔
نتائج ۔۔۔۔۔۔ اس گناہ کے زخم ناجائز تعلقات صرف وقتی جذباتی غلطی نہیں۔یہ عزت کی موت، خاندان کی تباہی اور روح کا بچھڑ جانا ہے۔
اس کے نتیجے میں:
• بے سکونی
• گھر کے جھگڑے
• پڑھائی و کردار میں بگاڑ
• بلیک میلنگ
• عزت کا نقصان
• خودکشی تک کی نوبت
یہ شر صرف فرد کو نہیں بلکہ پورے خاندان کو پگھلا دیتا ہے۔ تدارک۔۔۔ علاج، راستہ اور روشنی
یہ مسئلہ نیا نہیں، مگر اس کا حل آج بھی اُسی زمانے کی روشن ہدایات میں ہے جس نے دنیا کو حیا سکھائی تھی۔ 1. گھر میں دینی تربیت کی بحالی
ماں باپ وہ چراغ جلائیں جو دل کو پاکی سکھائے۔
• نماز کی پابندی
• سیرتِ صحابیات کا ذکر
• حیا اور عزت کی اہمیت
یاد رہے: تربیت صرف جیبیں نہیں بھرتی، نسلیں بناتی ہے۔ 2. موبائل پر سخت نگرانی اور حدود
• رات کو فون نہ دیا جائے
• والدین کو معلوم ہو کہ بچی کس سے بات کر رہی ہے
• سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی نگرانی کی جائے
یہ بے اعتمادی نہیں؛ حفاظت ہے۔ 3. حیا دار ماحول کی فراہمی
کوچنگ، کالج، سفر، تقریبات—ہر جگہ حیا کی فضا ضروری ہے۔
بچیوں کے لیے فلٹرڈ ماحول، محفوظ راستے اور پردے کی سہولت والدین کی ذمہ داری ہے۔ 4. جلد اور سادہ نکاح کی ترغیب
نکاح کو آسان اور زنا کو مشکل بنانا ہی اسلام کا اصول ہے۔
جب والدین اپنی بیٹیاں بلاوجہ تاخیر کرتے ہیں تو یاد رکھیں:
وقت جذبات کو نہیں سمجھتا، اور جذبات غلط راستے ڈھونڈ لیتے ہیں۔ 5. اسلامی جرأت اور حوصلہ پیدا کرنا
بچیوں کو صرف ڈرائیں نہیں؛ سمجھائیں بھی۔
اُن میں یہ جرات پیدا کریں کہ
"غلط دوستی" کی دعوت ملے تو
نہ کہنے کا حوصلہ ہو،
علقہ ختم کرنے کا حوصلہ ہو،
گھر والوں کو بتانے کی ہمت ہو۔ 6. دینی ماحول سے جوڑنا
مدرسہ، دروسِ قرآن، خواتین کے اجتماعات، سنی دعوت اسلامی جیسے اصلاحی ماحول۔
یہ دلوں کے زخموں کا بہترین مرہم ہیں۔
مسلم بیٹی قوم کی عزت ہے، گھر کی حرمت ہے، اور امت کی آنکھوں کا نور ہے۔ اسے گناہ کے اندھیروں میں دھکیل دینا ہمارا جرم بھی ہے اور غفلت بھی۔
آئیے! اپنی بیٹیوں کے دلوں میں حیا کے چراغ دوبارہ روشن کریں۔ اُنہیں قرآن کا دامن تھمائیں،
رسولِ پاک ﷺ کی پاکیزہ تعلیمات سکھائیں،
ان کے راستے روشن کریں،
اور انہیں گناہوں کی آندھیوں میں تنہا نہ چھوڑیں۔
یہ لڑائی صرف بچیوں کی نہیں۔یہ پوری امت کی عزت کی لڑائی ہے۔اور ہم سب کو اس میں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔