وہ سیاہ رات… اور آج کی کہکشاں (ایک تاریخی، روحانی، دستاویز) از قلم: محمد زید عمری، پاچورہ ضلع جلگاؤں
Author -
personحاجی شاھد انجم
دسمبر 04, 2025
0
share
"ادارے، قوموں کی تقدیر بدلتے ہیں، مگر ان اداروں کی بنیادیں کبھی سکون و عافیت میں نہیں پڑتیں یہ آنسوؤں، قربانیوں، خوفناک راتوں اور ٹوٹی چھتوں سے جنم لیتے ہیں۔ زیرِ نظر مضمون محض ایک یادداشت نہیں ،یہ ایک روحانی تاریخ، ایک دینی روایت، ایک دردمندانہ داستان اور ایک ایسی رات کا فسانہ ہے جس نے مدرسہ تعلیم النساء پاچورہ ضلع جلگاؤں کی بنیادوں کو فولاد بنا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو حافظہ جیسی عظیم نعمت عطا کی ہے۔ بعض یادیں تسکین بنتی ہیں، بعض دل میں چبھتی رہتی ہیں، مگر بہرحال انسان کی شناخت اسی حافظے کی مرہونِ منت ہے۔ مصنف کی یادداشت 4–5 سال کی عمر تک کے واقعات بھی محفوظ رکھے ہوئے ہے، جو اللہ کی خاص عطا ہے۔ سن 2002 کی وہ ہولناک رات—ایک عینی شاہد کی گواہی رات کا وقت، ہوا کی سرسراہٹ، اور پھر یکایک ٹین کی چھت پر پتھروں کی بارش حجایسا منظر جس نے ننھی منی درجنوں بچیوں اور چند کمزور فص دیواروں کے اندر قیامت سا ہول ڈال دیا۔ بھیانک لمحے؛ پتھروں کی گونج؛بھیڑ کے نعرے؛:اور ۔۔۔۔ سو سے زائد بچیوں کی چیخیں اندھیرا، خوف اور بے بسی۔ دفاع کی آخری کوششیں: گرم پانی، لال مرچیں اور ڈنڈے۔ چار مرد؛ والدِ محترم مولانا مختار احمد ندوی، ایک سپاہی، ایک بزرگ اور ایک معصوم بچہ۔ اور باہر سینکڑوں کا مسلح ریوڑ… تباہ کرنے کے درپے۔اللہ کی مدد ایک روشن کرن۔ بھیڑ نے مسجد توڑی، آفس توڑا، شیڈ گرایا… مگر پانچ فٹ کی دیوار نہ پھاند سکی۔ یہ محض اتفاق نہیں تھا۔ یہ اللہ کا وہ غیبی سایہ تھا جو اپنے دین کے اداروں کی حفاظت خود فرماتا ہے۔ مصنف کے بقول: “اگر وہ دیوار پھاند لی جاتی، تو نہ جانے ان بچیوں کا کیا حال ہوتا؟ ہمارا خاندان کہاں ہوتا؟” استقلال کا مینار؛مولانا مختار احمد ندوی۔ حادثے کے بعد مشورے آئے کہ مدرسہ بند کر دیا جائے، جگہ بدل دی جائے۔ مگر ایک مردِ مجاہد ڈٹا رہا۔ اس کے قدم نہ کانپے، نہ لرزے۔ آج وہی عزم “مدرسہ تعلیم النساء” کی مضبوط عمارتوں میں نظر آتا ہے۔ وہ ٹوٹی چھتیں… اور آج کی کہکشاں۔۔ جو مدرسہ کبھی پتھروں کی بارش، خوف کے سائے اور سیاہ راتوں کا اسیر تھا آج علم، نور اور ایمان کا مرکز ہے۔ مدرسے کی موجودہ عظمت۔ بلند و بالا عمارتیں آباد بستیاں سیکڑوں فارغ طالبات علومِ نبوت کی قافلہ سالاری۔ پوری بستی کا علمی و روحانی مرکز، یہ حقیقت ہے کہ اگر یہ مدرسہ نہ ہوتا تو شاید آج یہ وسیع آبادی بھی مسلمانوں کے حصے میں نہ ہوتی۔ ادارے قربانیوں سے بنتے ہیں ایک صحافتی و سماجی پیغام یہ مضمون مخالفین کے نام کھلا پیغام ہے: کسی بھی مدرسے، کسی بھی ادارے یا کسی بھی ذمہ دار پر انگلی اٹھانے سے پہلے اس کی تاریخ پڑھو۔ اس کے زخم دیکھو، اس کی خوفناک راتیں سنو، اس کے بانیوں کی قربانیوں کو پہچانو۔ دینی ادارے فائلوں میں نہیں بنتے،یہ خوف، آنسو، مسلسل محنت، یقین اور اللہ پر بھروسے سے بنتے ہیں۔نہ وہ رات بھولی ہے نہ وہ چیخیں نہ وہ خوف نہ وہ اللہ کی مدد اور نہ وہ عزم جو آج قصرِ تعلیم کی بنیاد بنا۔ مصنف نے بالکل بجا لکھا ہے:"ستون دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ' جہاں تلک یہ ستم کی سیاہ رات چلے۔" اللہ تعالیٰ مدرسہ تعلیم النساء کو مزید استقامت، برکت، حفاظت اور ترقی عطا فرمائے۔ بانیانِ ادارہ، بالخصوص حضرت مولانا مختار احمد ندوی کی خدمات کو قبول فرمائے۔ اور اس علم کے مرکز کو قیامت تک نورِ نبوت کا امین بنائے۔ آمین یا رب العالمین۔ پیش کش؛ ابو عاصم جلگاؤں ۔