ہائی ٹینشن کا دہشت ناک سایہ ۔۔پھر تین دینی شخصیات بنی لقمۂ اجل! "قائدین کی منتظر عوام" عقیل خان بیاولی
Author -
personحاجی شاھد انجم
دسمبر 09, 2025
0
share
مہرون جلگاؤں کی تاریخ ایک بار پھر اسی المناک موڑ پر آ کھڑی ہوئی ہےجہاں بجلی کے بوسیدہ تار، لاپروا انتظامیہ اور خاموش قیادت نے ایک دفعہ پھر قیمتی جانیں چرالی ہیں۔ 2017ء کے ماہِ رمضان کی وہ پہلی طاق رات یاد کیجیے! بازار روشن تھا، عبادت گزاروں کا ہجوم تھا، اور رضا مسجد البرکات چوک سے گزرتی ہوا میں رحمتوں کی خوشبو شامل تھی۔ دو رکشہ ڈرائیور،عمران خان اور عمران شیخ اپنے مسافروں کے منتظر کھڑے تھے۔ اچانک ایک گرجدار جھکڑ اٹھا… ایک برقی تار کٹ کر ان پر آ گرا۔۔ ایک شعلہ بھڑکا… اور لمحوں میں اندھیرا چھا گیا۔دو نوجوان اسی مقام پر موت کی وادی میں اتر گئے۔ احتجاج ہوئے… میمورنڈم دیے گئے… یقین دہانیاں کروائی گئیں… مگر پھر وہی روایتی بے حسی، وقت گزرتا گیا اور وعدے ماضی کی دھول میں دب گئے۔ دو خاندان بیوہ، یتیم اور بے سہارا رہ گئے۔ لیکن نظام وہی رہا، تار وہی رہے، خطرہ وہی رہا اور قیادت؟ خاموش!وہی جگہ… وہی تار… اور پھر قیامت خیز سانحہ! اب ٤ دسمبر 2025 کو اسی مقام نے ایک اور دِل شکن منظر دیکھا۔صرف ایک نہیں تین تین دینی شخصیات موت کے منہ میں دھکیل دی گئیں!حافظِ قرآن، قاری،نعت خواں، استادِ قرآن، مولانا صابر رضا قادری جن کے وجود سے محلے میں نور تھا، اپنی نورِ نظر کمسن بیٹی اور معصوم بھانجی کے ساتھ لمحوں میں زندگی کی قید سے آزاد ہوگئے۔ یہ صرف تین جنازے نہیں تھے…یہ ملت اسلامیہ کا سرمایہ تھا جو ہماری بے عملی کی نذر ہوگیا۔ قیادت سے لے کر انتظامیہ تک سوالوں کی بارش! پہلے 2 اموات… پھر 3 اموات تعداد بڑھ رہی ہے، خطرہ بڑھ رہا ہے، مگر ہماری توجہ؟ اب بھی صرف تصویروں میں، تعزیتوں میں اور رسمی بیانات میں سمٹی ہوئی ہے۔ ان دلخراش حادثوں نے دو حقیقتیں کھول کر رکھ دی ہیں:1 ، بستی میں موت کے تار اب بھی لٹک رہے ہیں! اگر آج بھی منظم، قانونی، اجتماعی تحریک نہ اٹھائی گئی تو تاریخ پھر دہرا دی جائے گی۔2 ،قیادت جب تک متحد نہ ہو، نتائج ہمیشہ خوفناک ہی آئیں گے۔ جنازوں کے بعد چند گھنٹوں کا شور کسی انقلاب کی ضمانت نہیں ہوتا۔ اب صرف غم اور غصے سے کام نہیں چلے گاعملی جنگ کی ضرورت ہے! اہلِ شہر، سیاسی و سماجی کارکنان، مذہبی تنظیمیں، فلاحی ادارے سب کے لیے لمحۂ فکریہ ہے کہ کیا فوٹو آنے یا نہ آنے سے بڑا کوئی مقصد نہیں؟ کیا نام شائع ہونے یا نہ ہونے کے ڈر سے تحریکیں دبتی رہیں گی؟ کیا اگلا جنازہ کسی اور کے گھر سے اٹھے تب ہم بیدار ہوں گے؟ اگر واقعی مقصد خالص ہے تو پھر منصوبہ بندی، قانونی دباؤ، اجتماعی قیادت اور آخری حد تک جد وجہد ہی واحد راستہ ہے۔ یہ تاریخ کی آخری چیخ ہو۔۔۔آخری جنازہ۔۔۔ اللہ نہ کرے کہ کسی گھر سے، کفیل کا جنازہ، باپ کا جنازہ، بیٹی کا جنازہ، بھانجی کا جنازہ تین تین میّتیں ایک ساتھ اٹھتی رہیں، اور ہم صرف تعزیتیں لکھتے رہیں۔وقت آ گیا ہے کہ شہر کی فضاؤں میں یہی اعلان گونجے،بس! اب مزید جانیں نہیں جائیں گی یا نظام بدلے گا، یا تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی!