امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ
از: شکیل مصطفی، مالیگاؤں
9145139913
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ تھے۔ ان کے والد کا نام خطاب تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ۵۸۳ ء میں مکہ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے پہلوانی اور شہسواری کے فنون میں مہارت حاصل کی اور پڑھنا لکھنا بھی سیکھا۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ تجارت کرتے تھے۔ تجارت کے سلسلے میں انہوں میں دور دراز کے سفر کئے اور دولت کمانے کے علاوہ علم تجربہ بھی حاصل کیا۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت کی مدت دس برس چھ مہینے اور چار دن ہے۔ ان کے دور خلافت میں اسلامی حکومت بہت وسیع ہوگئی تھی۔ اتنی بڑی حکومت کو سنبھالنےکے لیے انہوں نے ایک باقاعدہ نظام قائم کیا۔ مفتوحہ ملکوں کو صوبوں میں تقسیم کرکے ہر صوبے کے انتظام اور نگرانی کے لیے ایک عامل مقرر کیا۔ بیت المال، عدالت، آبپاشی، فوج اور پولیس کے محکمے قائم کئے۔ جیل خانے بنوائے، شہر آباد کروائے، نہریں کھدوائیں، مہمان خانے تعمیر کروائے، فوجی چھاؤنیاں بنوائیں، مردم شماری کروائی اور جگہ جگہ مکاتب قائم کیے۔ ان کی ہدایت پر صلاح و مشورے کے بعد ہجرت کی تاریخ کو بنیاد بناکر ہجری کیلنڈر کی ابتداء کی گئی۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ راتوں کو گشت کرکے لوگوں کو حال چال معلوم کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ گشت کرتے ہوئے مدینے سے تین میل دور پہنچے۔ دیکھا کہ ایک عورت کچھ پکا رہی ہے اور دو تین بچے بلک بلک کر رو رہے ہیں۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ نے سبب پوچھاتو عورت نے بتایا ’’ان کو کئی وقت سے کھانا نہیں ملا ہے، انہیں بہلانے کے لیے میں نے ہانڈی میں پانی اور کنکر ڈال کر چولہے پر چڑھادی ہے۔‘‘حضرت عمررضی اللہ عنہ فوراً مدینے آئے، بیت المال سے کھانے پکانے کی چیزیں لیں اور اپنے غلام اسلم سے کہا، ’’اسے میری پیٹھ پر رکھ دو۔‘‘
اسلم نے کہا، ’’میں لیے چلتا ہوں۔‘‘
فرمایا! ’’کیا قیامت میں بھی میرا بوجھ تم اٹھاؤ گے؟‘‘ چنانچہ خود ہی سب سامان لے کر پہنچے۔ اب اس عورت نے پکانے کی تیاری کی۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے خود چولہا پھونکا۔ کھانا تیار ہوا تو بچوں نے سیر ہوکر کھایا اور اچھلنے کودنے لگے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ دیکھتے تھے اور خوش ہوتے تھے۔ عورت کہنے لگی، ’’خلیفہ تو تمہیں ہونا چاہیے تھا نہ کہ عمر کو۔‘‘
حضرت عمررضی اللہ عنہ آبدیدہ ہوکر بولے ’’اللہ میری غفلت کو معاف فرمائے۔ میں ہی عمر ہوں۔ تم بھی غفلت کو معاف کردو کہ میں اتنے دن تمہاری حالت سے بے خبر رہا۔‘‘ ایک مرتبہ تاجروں کا ایک تاجروں کا ایک قافلہ مسجدِنبوی کے باہر آکر رکا۔ رات کو امیر المومنین رضی اللہ عنہ نے عبدالرحمٰن بن عوفرضی اللہ عنہ کو ساتھ لیا اور کہا’’آؤ آج رات ان تاجروں کے مال کی حفاظت کے لیے پہرہ دیں۔‘‘ چنانچہ دونوں جلیل القدر صحابہرضی اللہ عنہ نے رات بھر تاجروں کے مال کی حفاظت کی۔ تاجروں کو علم بھی نہ ہوا کہ امیرالمومنین رضی اللہ عنہ خود ان کے مالِ تجارت کی نگرانی کررہے ہیں۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ چاہتے تو اپنے سپاہیوں کو بھی حکم دے سکتے تھے مگر انہوں نے ایسا نہ کرکے دنیا کے حکمرانوں کے لیے ایک مثال قائم کردی۔
ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے حضرت عمررضی اللہ عنہ کے دور خلافت کا ایک دلچسپ واقعہ یوں بیان کیا ہے۔ ’’میرے لڑکپن کا زمانہ تھا۔ میں مدینے کے کچھ بچوں کے ساتھ ایک باغ میں کھجوریں چن رہا تھا ۔ اچانک حضرت عمررضی اللہ عنہ تشریف لائے۔ بچوں نے ان کو دیکھا تو اِدھر اُدھر بھاگ گئے مگر میں اپنی جگہ جم کر کھڑا رہا۔ میری جھولی میں کھجوریں تھیں۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور پوچھا!
’’کیا تم کھجوریں چُرارہے تھے؟‘‘ میں نے عرض کیا، ’’نہیں جو کھجوریں ہوا اور آندھی سے نیچے گر پڑی تھیں وہ میں نے چُن لی ہیں۔‘‘
کہا! ’’اچھا ، مجھے دکھاؤ۔ میں نے کھجوریں دکھائیں تو دیکھ کر فرمایا، ’’تم نے سچ کہا۔‘‘ باقی لڑکے اپنی کھجوریں اِدھر اُدھر پھینک کر بھاگ گئے تھے۔ میں نے عرض کیا:
’’یاامیرالمومنین ! اگر میں یہاں سے نکلوں گا تو لڑکے چھینا جھپٹی کریںگے۔‘‘ یہ سن کر آپرضی اللہ عنہ میرے ساتھ ہولیے اور مجھے گھر تک پہنچا کر رخصت ہوئے۔‘‘ ایک عظیم الشان حکومت کا خلیفہ ہونے کے باوجود حضرت عمررضی اللہ عنہ کی زندگی بے انتہا سادہ تھی۔ وہ معمولی لباس پہنتے، بہت ہی سادہ غذا استعمال کرتے اور مسجد کے کسی بھی گوشے میں مٹی کے فرش پر لیٹ جاتے تھے۔ وہ تقویٰ، پرہیز گاری، حق پرستی، راست گوئی اور عدل و انصاف کا پیکر اور اسلامی اخلاق کا بہترین نمونہ تھے۔
ایک مجوسی فیروز ابن لوٗلوٗ نے ۶۴۴ء میں حضرت عمررضی اللہ عنہ پر خنجر سے اچانک حملہ کیا۔ زخم اتنا کاری تھا کہ وہ جانبر نہ ہوسکے۔ انہیں حضرت محمدﷺ کے پہلو میں دفن ہونے کا شرف حاصل ہوا۔