۔۔اور عزت و ذلت کا دینے والا اللہ ہی ہے ۔اگر خدائے پاک کسی کو عزت دینے پر آجائیں تو چاہے پوری دنیا اس کو ذلیل و رسوا کرنے کی کوشش کرے،نہیں کر سکتی ۔اور اگر وہ خالق کائنات کسی کو ذلیل کرنے پر آجائے تو وہ ذلیل و خوار اور رُسوا ہو کر رہے گا ۔لیکن پھر بھی اللہ پاک کا ایک اصول ہے کہ اپنے بندے کے عیبوں کو چھپاتا جاتا ہے ۔کبھی کبھی تو بندے کی پوری عمر اس کے عیوب دنیا والوں سے چھپا لیتا ہے ۔یہ اس کی اپنے بندوں سے بے حد محبت کی ایک ادنی سی مثال ہے ۔علماء اور بزرگوں نے اس میں سے ایک نکتہ نکالا تھا کہ تم جس چیز کی عزت کرو گے وہ چیز بھی تمہاری عزت کرے گی۔
نہ صرف انسان بلکہ حیوانوں سے بھی اگر عزت کا معاملہ کیا جائے تو وہ بھی اس کا پاس و لحاظ کریں گے اور اس سے محبت سے پیش آئیں گے ۔اگر انسان اپنے کپڑوں کی عزت کرے گا تو کپڑا بھی اس کی عزت کرے گا ۔اپنے گھر، کتابوں ،سواریاں غرض ہر وہ شۓ جو عزت چاہتی ہے ، اگر اسے ویسی عزت دی جائے تو وہ بھی انسان سے ویسے ہی پیش آتی ہے۔لیکن ایک بات یاد رہے کہ عزت کا جذبہ اپنے اندر خلوص چاہتا ہے ۔یہ بے لوث ہوتا ہے ۔عزت و تکریم دل سے کی جاتی ہے ۔یہاں ایک فرق ابھر کر سامنے آتا ہے کہ عزت کرنا اور ہے ،اور عزت کروانا اور ہے ۔اگر کوئی صاحب اقتدار، صاحبِ منصب ،صاحب دولت یا صاحب وصف، اس نیت کے ساتھ اپنی قدر کروانا چاہتا ہے کہ میرے ماتحتین یا میرے مرعوبین، میرے عہدے، دولت یا منصب کی وجہ سے میری قدر کریں تو وہ اس کی عزت تو کرلیں گے لیکن وہ بحالت مجبوری ہوگی ۔وہ عزت اس شخص کے لئے نہیں ،اس کی کرسی ،دولت اور عہدے کے لیے ہوگی۔وہ اپنے اندر وہ خلوص نہیں رکھے گی۔اس نکتے کو اگر ذہن میں رکھ کر سماج میں نظر ڈالی جائے تو ایسے ایسے انکشافات سامنے آتے ہیں کہ انسان لفظ عزت، ناموس اور تکریم کے اصل معنی ڈھونڈنے لگتا ہے اور فوراً احساس ہو جاتا ہے کہ جو عزت کروائی جا رہی ہے اس میں مجبوریاں چھپی ہوئی ہیں۔
ذرا دولتمندوں کے پھیلے ہوئے کاروبار میں کام کرنے والے مزدوروں کے دل کا حال پوچھئے ،جو مالک کے ظالمانہ رویہ کو ہر حال میں صرف اس لئے برداشت کرتے ہیں کہ اس کے کاروبار سے ان کی روزی وابستہ ہے ۔سرکاری درباری شعبہ جات میں کام کرنے والے اسٹاف کا حال دیکھۓ ،کس مجبوری کے تحت وہ اپنے اعلیٰ افسران کی عزت کرنے پر مجبور ہیں۔یہ جانتے ہوئے کہ اس کی کمزوریاں سب پر عیاں ہیں۔تعلیمی اداروں پر نظر ڈالیے ،اساتذہ کرام نیز غیر تدریسی اسٹاف،اپنے حساس دلوں کے ساتھ کتنی مجبوری سے انتظامیہ کی عزت کرنے پر مجبور ہیں ۔یہ جانتے ہوئے کہ انتظامیہ کے افراد کتنے تعلیم یافتہ ہیں اور ان کی عقل و شعور کس سطح کی ہےاور یہ بھی جانتے ہوئے کہ جو عزت وہ انتظامیہ کو دے رہے ہیں،ویسی عزت کی ان سے توقع بھی نہیں کی جاسکتی اور ایسے ادارے بھی مشاہدے میں آئے ہیں جہاں انتظامیہ کے ہر فرد کو ،اسٹاف کے ہر فرد سے عزت سے پیش آتے ہوئے پایا گیا ہے ۔
سیاسی گلیاروں کی تو بات ہی الگ ہے ۔ہر ایرا غیرا اپنے لیڈر کی خوامخواہ عزت کرنے پر مجبور نظر آئے گا۔اپنا مفاد حاصل کرنے کے لئے اس کی جوتیاں تک سیدھی کر دے گا،اور اپنے ہر چھوٹے سے بڑے عمل سے یہ ثابت کرنے کی بھر پور کوشش کرے گا کہ وہ اپنے لیڈر کا کتنا خیال رکھتا ہے ۔لیکن لیڈر اس کا کتنا خیال رکھتا ہے یہ تو وقت ہی بتاتا ہے ۔بینکوں میں، پوسٹ آفس میں سرکاری ہسپتالوں میں ،ذاتی کاروبار کی آفسوں میں ،جدھر بھی نظر دوڑا کر دیکھ لیجیے ،یہی نقشہ نظر آئے گا ۔دراصل ماتحتین کی اپنے افسران کے لئے عزت تو اپنے اندر مجبوری رکھتی ہے ،لیکن افسران کی ان کے لئے جو تھوڑی بہت عزت کا جذبہ ہے اس میں مجبوری قطعی نہیں ،بلکہ انا پرستی ہے ۔عہدے داروں دولتمندوں اور منصب داروں کے قول و فعل اور گفتار و کردار میں اناپرستی سر چڑھ کر بولتی ہوئی نظر آتی ہے۔
بہت کم ایسے صاحب وصف ملیں گے جو عزت کا جواب عزت سے دیں گے ۔ایک دوسرے کے لئے اگر عزت و تکریم کا مشاہدہ ہی کرنا ہو تو خدائے پاک کا اپنے بندوں کو عزت و وقار عطا کرنے کا معاملہ دیکھیں ۔نبیوں کا اپنے صحابہ سے اور صحابہ کا اپنے نبیوں سے عزت کا معاملہ ملاحظہ فرمائیں ۔خلفاء راشدین کا صحابہ سے معاملہ دیکھیں ۔نبیوں کا اپنے منافقین اور مشرکین سے بھی عزت کا معاملہ دیکھیں اور یہ بھی ملاحظہ کریں کہ منافقین و مشرکین نے نبیوں کے ساتھ کس طرح کی عزت کا معاملہ روا رکھا تھا ۔مذاہب کی مثال لیجئے ۔کون ساوہ مذہب ہے جس نے دنیا میں سب سے پہلے عورتوں کو عزت دینا سکھایا اور ان کی عزت و ناموس کو کیٔ درجات میں تقسیم کر کے انسانیت کے شانہ بشانہ لاکھڑا کیا ۔کون سا مذہب ہے جو دوسرے مذاہب کی عزت کرنا نہیں سکھاتا ۔ اور کون سے مذاہب ہیں جن کی نظر میں ایک خاص مذہب کانٹابن کرکھٹکتا رہتا ہے۔
کیوں ایک طرف یہود و نصاریٰ اور دیگربت پرست، مذہب اسلام اور اس کی تعلیمات کو تو عزت و احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں لیکن اسلام کے ماننے والوں کے لئے ان کے دل میں عزت کی کوئی جگہ نہیں۔کئ رشیوں منیوں سادھو اور سنتوں کی تقاریر کالب لباب اسلام اور اس کی تعلیمات رہاہے لیکن مسلمانوں کے لیے وہ کوئی خاص بیان دینے سے قاصر ہیں۔اور خود ہماری اپنی قوم میں بھی ایسے افراد ملیں گے جو کسی کو باعزت دیکھ نہیں سکتے ۔دراصل لوگوں میں ایک قبیلہ اس قسم کا ہے جو اپنی کم علمی،کم مائیگی ،کم عقلی اور معاشی تنزلی چھپانے کے لئے کسی کو ابھرتا ہوا اور پنپتا ہوا نہیں دیکھ سکتا ۔ان کی حسد اور جلن کسی کی بھی عزت و پزیرائ برداشت نہیں کرتی۔اس لیے وہ اپنے آپ میں کڑھتے رہتے ہیں۔
عزت کے متعلق ان کی سوچ کا یہ گھٹیا معیار ہے۔جبکہ ہونا یہ چاہیے کہ کسی کی عزت دل سے کرتے ہوئے زبان سے بھی کی جائے ۔اپنے سے چھوٹوں کو تُو تڑاخ اور گرے الفاظ سے پکارا جائے اور ان سے عزت کی توقع کی جائے،یہ کیسے ممکن ہے ۔ یاتعلق والے، عمر رسیدہ بزرگوں کو چڑانےوالے ناموں سے پکارا جائے تو ان کے بھی ناموں کو آنے والی نسلیں برےہی ناموں سے یاد کرے گی اور شاید مرنے کے بعد بھی اسی ناموں سے یاد کرے گی ۔اس لیے اگر ہم ہر بندے کے ساتھ عزت کا معاملہ رکھتے چلیں تو پھر دیکھیں اوپر والا کس طرح ہم پر بھی عزت و وقار کے دروازے کھولتا جائے گا ۔


