آرلکچنو میں مصری ڈانس لڑکیوں کا ایک طائفہ آیا ہوا تھا حمید ایوننگ سوٹ زیب تن کر کے نکل ہی رہا تھا کہ موبائل پر رنگ ہوئی۔ قاسم کی ویڈیو کال تھی۔ وہ آرلکچنو کے ڈائننگ ہال سے بول رہا تھا۔ اسکرین پر مرغ کی ٹانگ توڑتے قاسم کا چہرہ نظر آیا۔
" حمید بھائی۔ یار جلدی آؤ ۔ اور سوپر ماڈل مس کانٹا بیوٹی کوئین بھی یہاں موجود ہے۔ "
" کانٹا نہیں بے ۔ کانتا داس " حمید نے تصیح کی۔
"جو بھی ہو۔ جلدی آؤ۔ فون میں ہی گھس کر آجاؤ " قاسم چپڑ چپڑ چباتے ہوئے بولا۔
شوبز میں کانتا داس، اس سال کی بیوٹی کوئین جس کا بڑا شور تھا۔ ماڈلنگ کی دنیا میں کوئی اس کا ثانی نہیں تھا۔ نوجوان اس کی اداؤں کے دیوانے تھے تھے۔ فیشن شو کے ٹکٹ کی بلیک مارکیٹنگ ہوئی تھی۔ حمید جب آرلکچنو کے ڈائننگ ہال میں داخل ہوا تو ساری میزیں بک تھیں۔ ہال کھچا کھچ بھر چکا تھا وہ سیدھا قاسم کی میز پر پہنچا۔ پوری میز پلیٹوں سے بھری ہوئی تھی۔ قاسم نے اسے آنکھ ماری اور کنکھیوں سے دائیں طرف اشارہ کیا جہاں کانتا داس ڈنر کر رہی تھی۔ سوپر ماڈل کے دائیں بائیں دو سیکیورٹی گارڈز اپنے ہو لسٹر پر ہاتھ رکھے چوکنے کھڑے تھے۔ میڈیا والوں کو بھی بریکٹ لگا کر میز سے دور کردیا گیا تھا۔ پھر بھی میڈیا والے ویڈیو شوٹنگ کر رہے تھے۔ اس سے پہلے کہ حمید کرسی پر بیٹھتا موبائل پر رنگ ہوئی۔ یہ مخصوص رنگ تھی۔ یعنی کال فریدی کی تھی۔ حمید نے میز سے ہٹ کر کال ریسیو کی۔ فریدی کہہ رہا تھا۔ تمہیں کانتا داس کو کسی بھی بہانے پارکنگ میں لے جانا ہے۔ پارکنگ سنسان ہوگی۔ ناکافی روشنی ہوگی کیمرے شارٹ ٹائم میں ہیک ہو چکے ہیں۔ کانتا جیسے ہی اپنی کار کا دروازہ کھولے، تمہیں سائیلنسر لگے ریوالور سے اس کے سر میں گولی مار کر موت کو یقینی بنانا ہے۔ اور وہاں۔ اس کے پرس سے ریوالور اور موبائل نکال کر بحفاظت مجھ تک پہنچانا ہے۔ محتاط رہنا کے اپنے فنگرپرنٹس کہیں نہ رہ جائیں۔ اور وہاں فون آن کرنے کی غلطی نہ کرنا۔ " لل۔ لیکن۔ مم۔ میں اسے کیوں گولی مارو۔ مم۔ میرا مطلب ہے۔ پارکنگ میں کیسے۔؟
" اوہ۔میں تو بھول ہی گیا کہ میاں کیپٹن حمید کسی خوب صورت لڑکی کو کیوں گولی مارنے لگا۔؟ نوجوان لڑکی کے ہاتھوں حمید کو صاحب پھانسی لینا قبول ہے مگرلڑکی کو گولی مارنا۔؟ " فریدی کی طنز بھری آواز آئی۔ " ٹھیک ہے تمہارے مشکل آسان کیے دیتا ہوں "۔ فریدی بولا جاکر گھبراہٹ کے عالم میں کانتا سے کہو کہ اس کا ڈاگی غلطی سے کار میں بند ہو گیا ہے۔ گھٹن سے مر بھی سکتا ہے۔ ایسی حسینائیں اپنے بوائے فرینڈ سے زیادہ اپنے کتے سے پیار کرتی ہیں۔ تم گولی نہیں چلا سکتے تو بلیک فورس کے بلکیز کر سکتے ہیں۔ تم صرف اتنا کرنا کے کوتوالی فون کر کے انسپکٹر جگدیش کو پنچ نامہ کے لیے بلوایا لینا۔ لاش پوسٹ مارٹم کے لیے اٹھا دینا۔ میڈیا کو دور رکھنے کے لیے جتنی بھی طاقت لگانی پڑے استعمال کرنا۔ ہوٹل کے سارے دروازے بند کروا کے اس وقت تک انکوائری میں الجھائے رکھنا جب تک جگدیش اپنا کام مکمل نہ کرے۔ لاش کے گرد بھیڑ اکھٹا نہ ہونے پائے۔ یہ کام تم اپنا کارڈ بتا کر باآسانی کر سکتے ہو "
" سنیے وہ میں۔ " حمید نے کچھ بولنا چاہا مگر فریدی نے بات کاٹ کر کہا " قاسم کے ساتھ رہو گے تو یوں ہی اپنی عقل کا ماتم کرتے رہو گے" ۔ کال کٹ چکی تھی۔ حمید تھوک نگلتا ہوا کانتا داس کے ٹیبل تک گیا۔ سیکورٹی گارڈز نے اسے دور رہنے کا اشارہ کیا مگر حمید نے انتہائی احترام سے کانتا سے سرگوشی میں وہی بات دہرائی جو فریدی نے کہی تھی۔ کانتا ڈاگی کا نام سن کر منہ کا نوالہ اگل کر کھڑی ہو گئی اور دیوانہ وار دروازے کی طرح بھاگی۔ سیکورٹی گارڈ بھی اس کے ساتھ بٹرھتے مگر کانتا نے پیچھے آنے سے سختی سے منع کردیا۔ میڈیا والے کے بلاک میں زلزلہ آگیا وہ بھی کانتا کے پیچھے دوڑنا چاہتے تھے مگر ہوٹل کے سیکورٹی والوں نے انہیں ہلنے نہ دیا۔ صرف حمید اس کے پیچھے گیا۔ ادھر قاسم پیچ و تاب کھا رہا تھا۔ اور دل ہی دل میں حمید کی ساتھ پشتوں کو گالیاں دے رہا تھا۔ پارکنگ میں ملگجا اندھیرا تھا۔ دور دراز کا صرف ایک بلب اکیلا اندھیروں سے جنگ لڑ رہا تھا۔ کانتا نے کھڑکی کے شیشے سے اندر جھانکنے کی کوشش کی اور دروازہ کھولنے کے لیے جو نہی جھکی کہیں سے بے آواز فائر ہوا اور وہ وہیں ڈھیر ہو گئی۔ حمید نے وہی کیا جو فریدی نے کہا تھا۔ اس کے پرس سے ریوالور اور موبائل نکالا اور ہوٹل کے دروازے بند کرنے چلا گیا۔ اسے فریدی سے اس سنگ دلی کی امید نہ تھی۔ اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ ہال میں ہنگامہ بریا تھا لوگوں کا ریلا روکنے میں ہوٹل کے اسٹاف کو دانتوں تلے پسینہ آرہا تھا۔ حمید کو توا لی فون کر چکا تھا۔
حمید جب گھر پہنچا تو چہرے کا رنگ اڈا ہوا تھا۔ آنکھوں میں وحشت تھی۔ فریدی لیڈی انسپکٹر ریکھا کے ساتھ سائبر روم میں تھا۔
" آئیے کیپٹن حمید صاحب۔ " فریدی چہکا۔ " میرے خلاف خوب بد گمانیاں پال چکے ہو گے۔ فرزنداگر دماغ استعمال کرنا سیکھ جاؤ تو قابل جاسوس بن سکتے ہو۔ تم میں ایسی بہت سی خوبیاں ہیں جن کا خود تمہیں بھی اندازہ نہیں۔ ہماری فیلڈ میں جذبات نہیں انصاف دیکھا جاتا ۔ "
" کیسا انصاف؟ حمید نے طنزاً "کہا" کسی صنفِ نازک کا قتل کر کے؟ "
" بیٹے خان "۔ بچے ہو ابھی۔ " فریدی جوابا مسکرایا۔ " میں قاتل نہیں ہوں۔ وہ کئی مہینوں سے ہمارے ریڈار پر تھی۔ اس کے جرائم کا تمھیں علم نہیں۔ وہ آلئہ کار تھی۔ ہم اس کا موبائل ٹریک کر رہے تھے۔ میاں اگر ہم سے اسے قتل نہ کرتے تو وہ سینکڑوں لوگوں کو جُھلسے گوشت کے لوتھڑے میں بدل دیتی۔ وہ ایک زندہ بم تھی۔ سوسائڈ مشن پر تھی۔ جانتے ہو اس کا اصل شکار کون تھا؟ " حمید نے استفہامیہ نظروں سے اسے دیکھا۔ " مشہور پولیٹیشین اکرام الدین جو ٹیبل نمبر 24 پرڈنر کر رہے تھے۔ لیکن تم انہیں کب دیکھتے لڑکی جو دیکھ لی تھی۔ اس جملے پر ریکھا مسکرائی اور حمید جل بھن کر رہ گیا۔
"مگر کیوں"۔ حمید کا اگلا سوال تھا۔ سوال پر فریدی نے مسکرا کر کہا
" میاں الیکشن قریب ہیں۔ سب کے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔ کارپوریٹ سیکٹرز کا سیاسی پارٹیوں کو فنڈ کرنا بھی مفادات کا چکر ہوتا ہے۔ شوبز میں بھی ان کے ایجنٹ پائے جاتے ہیں۔ انہیں انسانی جانوں کی رتی برابر پرواہ نہیں ہوتی۔ منی۔ پالیٹکس، اینڈپاور۔
" مجھے اور انسپکٹر جگدیش کو تو کانتا کے پاس سے کوئی بم نہیں ملا۔ " حمید نے پھر اگلا سوال داغا۔
" اوہ۔ ہاں۔ یہ رہا بم۔ " فریدی نے کانتا کا موبائل فون نکالا جو ابھی حمیر نے اسے دیا تھا۔ " صرف اسے اوپن کرنے کی دیر ہے، ایک زور دار دھماکہ اور گوشت اور ہڈیوں کا ڈھیر۔ " حمید نے تھوک نکلا۔ اب مسس ریکھا اسے ڈی۔ فیوز کرےکریں گی۔ کیوں کہ وہ بم ڈسپوزل ایکسپرٹ ہیں۔ اور میں کانتا کے موبائل کی ہسٹری کھنگالتا ہوں۔ بڑی مچھلیاں پھنسنے کا یقین ہے۔ "
" فریدی صاحب " حمید کچھ سوچتا ہوا بولا "ہم اسے زندہ بھی گرفتار کر سکتے تھے۔" " لاکھوں ڈالر کا سوال ہے " فریدی نے طنزاً کہا؟ آج کل تم گھانس چرنے لگے ہو۔ یہ ہائی پروفائل معاملہ ہے۔ دورِ حاضر میں سب سے بڑا بزنس سیاست ہے۔ سیاسی مافیا کانتا کو عدالتوں سے بری کروا لیتے۔ اب تو جج کی کرسیوں کے پائیوں سے سیاسی پارٹیوں کے پرچم باندھے جاتے ہیں۔ اب کرائم برانچ کے لیے " سیاسی دہشت گردی " ایک چیلنج بن کر سامنے آئے گی۔ ہماری فرض شناشی کا امتحان ہے۔ " حمید نے ایک طویل سانس لی۔
" کرنل صاحب " ریکھا حمید کی طرف دیکھتی ہوئی بولی" میں انسانی دماغوں کو بھی ڈی فیوز کرنا جانتی ہوں۔ فریدی نے ایک زوردار قہقہہ لگایا۔ حمید اپنی گدی سہلا رہا تھا۔





بہترین
جواب دیںحذف کریں