شاہین باغ کے نغمے ایک عمدہ اور انوکھی کتاب ہے -عمدہ اس لئے کہ ایک واقعہ پر ایک وقت میں شاعری کے تمام اصناف کو اس میں شامل کیا گیا ہے - انوکھی اس لئے کہ میں خود بھی احتجاج میں پیش پیش رہتا تھا - لہذا شاہین باغ کے نغموں میں، میں خود کو ڈھونڈتا رہا - اور پھر یہ احساس ہوا کہ کاش یہ کتاب میں مرتب کرتا - رفیعہ نوشین نے میرا حق مار لیا" -
ان خیالات کا اظہار پروفیسر مظفر علی شہہ میری نے "شاہین باغ کے نغمے" کی رسم اجراء کے صدارتی خطاب میں کیا - ہمراہی ٹرسٹ کے زیر اہتمام اس تقریب کا انعقاد 14 ستمبر 2024 کو میڈیا پلس آڈیٹوریم میں کیا گیا تھا - مہمان خصوصی
اودھیش رانی باوا صدر محفل خواتین نے کہا کہ "بیسویں صدی میں رفیعہ نوشین نے اردو ادب کو دو اہم دستاویزات "کوئی بات اٹھا نہ رکھنا" رپورتاژ کا مجموعہ اور "شاہین باغ کے نغے" عطا کئے ہیں - جو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں" -
قمر جمالی معروف فکشن نگار نے کہا کہ رفیعہ نوشین نے "شاہین باغ کے نغمے" میں کثیر تعداد میں جو احتجاجی کلام جمع کیا ہے وہ کسی معرکہ آرائی سے کم نہیں - ان کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ جو ٹھان لیتی ہیں وہ کرکے رہتی ہیں - یہ کتاب اسی کا نتیجہ ہے "
پروفیسر آمنہ تحسین صدر شعبہ تعلیم نسواں، مانو نے کہا کہ " شاہین باغ کے نغمے وہ نغمے ہیں جو حب الوطنی کے جذبات، مزاحمت اور احتجاج سے بھر پور ہیں - جو ایک قومیت کا تصور دیتے ہیں - جو آپسی بھائی چارگی ، اتحاد، اور مشترکہ تہذیب کی ترجمان ہیں
ادب کا یہ سرمایہ بے حد اہم ہے - جسے رفیعہ نوشین نے جمع کرکے ترتیب دیا اور اسے ضائع ہونے سے بچا لیا "-
گواہ ویکلی کے مدیر فاضل حسین پرویز جو رفیعہ نوشین کی تحریروں سے بہت متاثر ہیں کہا کہ "نوشین کے معنی مصری کے ہیں - لیکن شاہین باغ کے اس کتاب کے مقدمے میں جگہ جگہ کڑواہٹ محسوس ہوتی ہے -وہ عصر حاضر کی 'ابن بطوطہ' ہیں" -
پروگرام کا آغاز طالب علم شبیر علی کی قرۃ کلام پاک سے ہوا، حمد ڈاکٹر عطیہ مجیب عارفی نے پیش کی نیز صدر جلسہ پروفیسر مظفر شہہ میری نے خود کی لکھی نعت شریف مترنم آواز میں سنائی -
پروگرام کے دوران وقفہ وقفہ سے کالج کے طالب علموں نے کتاب میں موجود کلام کو پیش کیا جسے خوب سراہا گیا - ڈاکٹر گل رعنا نے بہترین پیرائے میں نظامت کے فرائض انجام دئے - آخر میں پروگرام میں حصہ لینے پر طالب علموں کو مومینٹو پیش کئے گئے -
کثیر تعداد میں صاحب کتاب کی گل پوشی و شال پوشی کی گئی - انہی کے شکریہ کے ساتھ پروگرام اختتام کو پہنچا
اس پروگرام میں صاحب کتاب کے رشتہ دار، دوست احباب، اراکین محفل خواتین - اور ان کے اسٹاف ممبرس کی کثیر تعداد موجود تھی -اس کے علاوہ حیدرآباد کے علمی و ادبی شخصیات جیسے کہ ریختہ نامہ کے مدیر ڈاکٹر جاوید کمال ، جاوید محیی الدین ، ڈاکٹر حمیرہ سعید ، صائمہ متین ،بصیر خالد ، آرزو مہک ، تجمل فاطمہ، ڈاکٹر ناظم علی، اظہرالنساء وغیرہ شامل تھے - ان کے علاوہ محبان اردو کی کثیر تعداد
موجود تھی -