"ادبِ زنداں کا تاریخی باب: جلگاؤں کی سرزمین پر قید کی تنہائی میں پروان چڑھی دو انمول تصانیف کا روح پرور اجراء"
Author -
personحاجی شاھد انجم
جولائی 14, 2025
0
share
جلگاؤں (عقیل خان بیاولی) ادب، دعوت، فکر اور روحانیت کا حسین امتزاج لیے ایک تاریخی و باوقار تقریب کا انعقاد مہرون کے مشہور ٹکی ہال میں عمل میں آیا، جہاں دو گراں قدر تصانیف "قرآن درشن" (ہندی زبان میں) اور "اللہ کون ہے؟" (ہندی) کی باقاعدہ رسمِ اجراء انجام دی گئی۔ ان تصانیف کے مصنف قلمکار پرویز خان ہیں، جنہوں نے تقریباً چھ سال کی قید و بند کی تنہائیوں میں یہ فکری و ایمانی شاہکار تخلیق کیں۔اس پُروقار تقریب کی صدارت حضرت مولانا مفتی سید عتیق الرحمٰن نے فرمائی، جبکہ مہمانانِ علم و ادب، مختلف مسالک کے علما، صحافیوں، نوجوانوں اور دانشوروں نے بھرپور شرکت کی۔ تلاوتِ کلامِ پاک کی سعادت مولانا عمیر ندوی نے حاصل کی، جس کے بعد یکے بعد دیگرے خطابات، تبصرے اور دلی جذبات کا اظہار ہوا۔ادبِ زنداں کا احیاء ، ایک فکری و روحانی سنگِ میل۔پرویز خان کی یہ دونوں تصانیف، خصوصاً "قرآن درشن"، نہ صرف قید خانہ کی وحشتوں میں امید کے چراغ بنیں، بلکہ دعوتی ادب میں "ادبِ زنداں" کی روایت کو تازہ دم کر گئیں۔ مقررین نے ان کتابوں کو مولانا ابوالکلام آزاد کی "غبارِ خاطر"، فیض احمد فیض کی "زندان نامہ"، اور دیگر انقلابی اسیرانِ فکر کی یاد تازہ قرار دیا۔ یہ تخلیقات، جہاں قاری کو عقل و دل کے درمیان پل بناتی ہیں، وہیں الٰہی معرفت اخلاقیات، عدل و انسانیت، اور بین المذاہب مکالمے کی جانب رہنمائی کرتی ہیں۔فکری و دعوتی خدمت: ہر مذہب کے لیے ہدایت کی مشعل کتاب "قرآن درشن" کو غیر مسلم بھائیوں کے لیے آسان زبان میں پیغامِ قرآن کی ترجمانی کے لیے ایک انقلابی کاوش قرار دیا گیا۔ یہ تصنیف ایسی مخلوقِ خدا کو مخاطب کرتی ہے جو قرآن کے ترجمے و مفہوم تک رسائی چاہتی ہے مگر انہیں زبان یا اصطلاحات رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ اسی طرح کتاب "اللہ کون ہے؟" میں مصنف نے منطقی، فلسفیانہ اور وحی پر مبنی دلائل کی روشنی میں اللہ تعالیٰ کی ذات، صفات اور معرفت کو پیش کیا ہے۔ یہ نہایت مختصر مگر جامع تصنیف ہے جو ہر پڑھنے والے کو سوچنے، جاننے اور ماننے پر آمادہ کرتی ہے۔ قیدی نہیں، انقلابی مؤلف: پرویز خان کی خودنوشت کا ابتدائیہ... موصوف نے اپنے خطاب میں کہا، "جیل کی تنہائی نے میرے دل میں وہ سوالات پیدا کیے جن کے جوابات نے مجھے ان کتابوں کی طرف مبذول کیا۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ پیغام نہ صرف مسلمانوں بلکہ ہر مذہب کے فرد تک پہنچے۔۔ کہ اللہ کون ہے، اور قرآن کیا کہتا ہے؟ یہ کتابیں صرف مطالعہ کے لیے نہیں، بلکہ ہدایت کے چراغ ہیں۔" علما اور دانشوروں نے اپنے تأثرات میں مفتی فرحان نے ان تصانیف کو دعوت کا طاقتور ذریعہ قرار دیا اور کہا: "قلم اور زبان دونوں کے ذریعے دین کی خدمت کی جا سکتی ہے۔" حافظ عبدالرحیم پٹیل نے فرمایا: "قید ہو یا آزادی، انقلابی افراد ہر حال میں انقلاب بپا کرتے ہیں۔"مفتی خالد نے امت میں اتحاد، اخلاق اور انسانیت کے احیاء کی تلقین کی عبدالکریم سالار (سابق ڈپٹی میئر) نے مصنف کی ہمت کو سراہتے ہوئے اسے وقت کی ضرورت قرار دیا۔ فارو شیخ نے نوجوانوں کو دعوت دی کہ وہ میدانِ عمل میں آئیں اور حوصلے سے کام لیں۔نظامت کی ذمہ داری صابر مصطفیٰ آبادی نے حسنِ خوبی سے انجام دی۔ اختتام مفتی عتیق الرحمٰن کی ایمان افروز دعا کے ساتھ ہوا۔ یہ تقریب نہ صرف ایک مصنف کی علمی و روحانی کامیابی کی گواہی تھی بلکہ ادبِ زنداں کی روایت کو جلگاؤں جیسے شہر میں زندہ کر دینے والا ایک تاریخی لمحہ بھی ثابت ہوئی۔ بلاشبہ، ان کتابوں کا اجراء، موجودہ دور میں دعوت، اتحاد، فکر و معرفت کی شمع روشن کرنے کی ایک بھرپور کوشش ہے۔کامیابی کے لیے کنوینئر سیرت کمیٹی جلگاؤں جملہ اراکینِ نے محنت کی۔