آبروئے فن : سجاد شفق انصاری تحریر: عزیز اعجاز ( آرٹ ٹیچر، مدر عائشہ اردو ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج ، مالیگاؤں ) ATD_CTC_ GD.ART_AM_ BA_ MA
Author -
personحاجی شاھد انجم
جولائی 09, 2025
0
share
کچھ لوگ ہوتے ہیں جو زمانے کے بہتے ہوئے دھارے کے خلاف سفر کرتے ہیں۔ اس سفر میں آگے بڑھنے کی قوت ، توانائی اور حوصلہ انھیں اپنی متحرک شخصیت کی بو قلمونی ، خیالات کی پاکیزگی ، اپنے فن پر دسترس ، فکر و عمل کی پختگی ، اخلاقی پائیداری اور سماج سیوا کے مضبوط جذبوں سے ملتی ہے۔ سجاد شفق صاحب، جنھیں ہم محبت، عقیدت اور احترام کی وجہ سے سجاد شفق سر کے نام سے یاد کرتے ہیں-
موصوف نے مالیگاؤں کے تعلیمی افق کو اپنے مصوری کے فن سے روشن اور رنگین بنایا ہے۔ انھوں نے کمال پورہ کے ایک متوسط گھرانے میں ۱۹۶۷ء میں آنکھیں کھولیں ۔ ان کے والد ایک ایماندار محنتی اور سماجی خدمت کے جذبے سے معمور انسان تھے۔ تنگ دامانی کے باوجود انھوں نے اپنی اولادوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے سارے جتن کئے ۔
سجاد شفق صاحب اپنے بھائی بہنوں میں سب سے کم عمر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حصول تعلیم میں بھی سب سے زیادہ جدو جہد کرنی پڑی۔ آرٹ کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ اے ٹی ٹی ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج مالیگاؤں جیسے نامی گرامی اسکول سے وابستہ ہو گئے اور کچھ کم تین دہائیوں کا عرصہ یہیں گزار دیا اور آخر کار وہیں سے سبکدوش ہو گئے ۔ اس موقع پر ان کے رفقاء، ساتھی اساتذہ اور طلبہ انھیں عقیدت اور محبت کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔
اے ٹی ٹی ہائی اسکول میں آنے سے قبل وہ شہر عزیز کی ایک اور اسکول یعنی ماڈرن ہائی اسکول میں ایک قلیل عرصے کے لئے مصوری کی تعلیم پر مامور ر ہے تھے۔ یہ عرصہ گو کہ بہت مختصر ہے لیکن ان کے ذہن پر مرتسم ہونے والے وہی اولین نقوش تھے جو آج بھی تازہ کار ہیں، اور گاہے گاہے بازخواں کے مصداق ان کی زبان سے سنے جاسکتے ہیں۔
اے ٹی ٹی ہائی اسکول میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں طلبہ سے ان کا واسطہ پڑا۔ وہ جب کمرۂ جماعت میں ہوتے تو فن اور مصوری کی تعلیم کے ہمراہ طلبہ کی کردار سازی، اخلاق سازی، تعلیم کا شوق اور اس کی تڑپ پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ یہ ایسے غیر محسوس طریقے پر ہوتا کہ طلبہ کو اس وقت اس کا کوئی احساس نہ ہوتا لیکن ان سے دور ہوتے ہی طلبہ کو اس کا ادراک ہونے لگتا۔
اسکول میں کوئی خاص دن ہوتا یا کوئی پروگرام، اسٹیج کی تزئین، دیواروں پر آویزاں بورڈ اور صدر دروازہ سے متصل دیوار پر بڑے استقبالیہ بورڈ کی سجاوٹ ان کی حسن کاری اور ان پر موقع و موضوع کی مناسبت سے عناوین دینا اور ان سے مطابقت رکھتے ہوئے استقبالیہ جملے لکھنا انھیں سجانا اور ہر مرتبہ کچھ نیا کر جانے کی ان کی خواہش ، انھیں دیدہ زیب اور دلکش بنادیتی۔ ان کی لکھی ہوئی تحریریں ہوں یا بنائی ہوئی تصاویر ناظر کے دل سے بے ساختہ واہ ہی نکلتی تھی۔ بورڈز اور بنیرس تو انھوں نے ان گنت بنائے ہیں جن پر انھیں ڈھیروں داد بھی ملی ہے لیکن انھوں نے جو ادبی اور نیم ادبی کتابوں کے سرورق بنائے ہیں اور انھیں ڈیزائن کیا ہے وہ بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ میں نے جب ” محبان علم پبلی کیشنز“ کے نام کا ایک اشاعتی ادارہ شروع کیا تو اس وقت انھوں نے ادیب الاطفال ڈاکٹر اقبال برکی صاحب کے ایک ناول دھوئیں کا راز کا ایسا دیدہ زیب اور اپنے موضوع و مواد سے ہم آہنگ سرورق بنایا تھا کہ اس کتاب کی نکاسی میں جو تیزی آئی تھی وہ لا جواب تھی۔ کتاب کے ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو جانے میں اس کے سر ورق اور اس میں شامل تصاویر کا بھی بڑا ہاتھ تھا۔ اگر چہ کہ میں نے بھی اس ناول کے سرورق پر طبع آزمائی کی تھی لیکن اس میں وہ بات کہاں تھی مولوی مدن موہن کی سی۔ ناول طبع ہو کر کیا آیا ساری کا پیاں دیکھتے دیکھتے ختم ہو گئیں ۔ سجاد شفق صاحب کا حلقہ احباب کافی وسیع ہے۔ ان کے ہم نشینوں میں ڈاکٹر اقبال برکی اور رشید آرٹسٹ جیسے نامور احباب سر فہرست ہیں۔ ان کی عائلی زندگی بھی بڑی کامیاب ہے۔ ان کی اولادوں میں سب سے بڑی ایک بیٹی ہے جو ڈاکٹر ہے۔ دوسرا بیٹا کامرس کا گریجویٹ ہے اور سی اے کر کے کسی کمپنی میں ملازم ہے۔ جب کہ تیسرا بیٹا بیرون شہر ایم بی بی ایس کی تعلیم حاصل کر رہا ہے اور اب غالباً تیسرے برس میں زیر تعلیم ہے۔ میں نے جب اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا تو بحیثیت ڈرائنگ ٹیچر مجھے مختلف اسکولوں کے اس فن کے ماہر اساتذہ سے سابقہ رہا۔ جن لوگوں نے مجھے خصوصیت سے متاثر کیا ان میں اشفاق قریشی صاحب ، عبدالحمید صاحب (جمہور ہائی اسکول ) رضوان صاحب ( جے اے ٹی ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج) فرید صاحب اور سجاد شفق صاحب ( اے ٹی ٹی ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج ) خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ میں ان سے موقع موقع سے رہنمائی حاصل کرتا رہا اور ان سے نیاز حاصل کرتا رہا۔ سجاد شفق صاحب کو تو میں نے سب سے زیادہ ہمدرد، شفیق ، حلیم الطبع اور ہمہ وقت تعاون کرنے کو تیار رہنے والا پایا۔ اس دوران میں نے کبھی نہیں پایا کہ ان کے ماتھے پر کوئی شکن آئی ہو یا کوئی نا پسندیدہ رنگ آیا اور گیا ہو۔ وہ اکثر طلبہ کے درمیان ہونے والے آل مالیگاؤں ڈرائنگ مقابلے میں جج کے طور پر مدعو کئے جاتے ۔ ان کے فیصلے انصاف اور منطقی استدلال پر مبنی ہوتے اور دیگر جج صاحبان کے ہمراہ مقابلے سے وابستہ افراد کو قبول کرنے کے سوا کوئی مفر نہیں ہوتا۔ اب جب کہ وہ ۳۱ مئی ۲۰۲۵ء کو باقاعدہ اپنی تدریسی خدمات سے سبکدوش ہو چکے ہیں، تو یہ یقین کامل ہے کہ انہوں نے فن و اخلاق کے جس چراغ کو فروزاں رکھا، وہ دیر تک طلبہ، اساتذہ اور وابستگان علم و فن کے دل و دماغ میں روشن رہے گا۔ اُن کے افکار، ان کی تربیت، ان کی خوش خلقی اور جمالیاتی ذوق آنے والی نسلوں کے لیےچراغِ راہ اور مینارِ ہدایت ثابت ہوں گے۔ اس پُر وقار موقع پر، میں بارگاہِ ربِّ کریم میں دست بستہ دعا گو ہوں کہ وہ محترم سجاد شفق صاحب کو بقیہ زندگی بھی صحت و عافیت کے ساتھ خوش و خرم رکھے اور ان پر اپنی رحمتوں کی بارش کا سلسلہ دراز رکھے۔ آمین یا رب العالمین !!