سائنس ایک منظم شعبہ ہے جو تجرباتی مفروضات اور دنیا کے بارے میں پیشن گوئیوں کی شکل میں علم کو بناتا اور منظم کرتا ہے۔ یورپ نے عرب اور مسلمانوں کے ایجاد کردہ علوم اور اصولوں کو لے کر ان پر نہایت یکسوئی اور جانفشانی سے کام کیا اور انہیں ترقی دی، وسعت دی اور تجدید کے نتیجے میں آج زمام اقتدار ان کے ہاتھوں میں ہے۔ دنیا کوکٹھ پتلی بنا کر دیگر قوموں کا استحصال کرنا کبھی بھی سائنس کا مقصد نہیں رہا مگر یہی سائنس آج بھی اس استحصالی نظام اور برائی کے خاتمے کا ہنر رکھتی ہے۔
پرانے وقتوں میں بنی نوع انسان کے بیشتر قصے کہانیوں کے کردار آج سائنس کی وجہ سے حقیقت کا روپ دھار چکے ہیں، بلکہ اس سے بڑھ کر خواب و خیال سے پرے ایسی ایسی ایجادات کو جنم دیا ہے کہ عقل حیرت کے سمندر میں غوطہ زن رہ جاتی ہے۔ گھریلو استعمال سے لے کر خلاء تک پھیلی ہوئی تقریبا تمام چیزوں پر تصرف سائنس کی مدد سے ممکن ہو سکا ہے۔ زندگی کا ہر شعبہ چاہے تجارت ہو، پیغام رسانی ،نقل وحمل، زراعت، تعلیم، صنعت و حرفت، سائنس کے کرشمات سے بھری پڑی ہے۔ آج تفریح کے مختلف ذرائع بھی سائنس کی ہی مرحون منت ہیں۔
ذراعت میں نت نئی ایجادات نے بھوک جیسے عفریت سے ہمیں نجات دی۔ بن جامن فرینکلن نے بجلی کی دریافت کر کے انسانیت کو گھٹا ٹوپ اندھیرے سے نکال کر اجالے کا حوصلہ دیا اور تھامس ایلوا ایڈیسن نے بجلی کی پیداوار، مواصلات، آوازوں کو محفوظ کر کے اور محرک تصاویر کی دریافت سے سائنس کو نئی جہت عطا کی۔ جون گٹن برگ، نے چھاپہ خانہ بنا کر انسانیت کو تہذیبی ترقی دی، فولاد کی دریافت کر کے ہینری بسمر نے دنیا کا رخ موڑ دیا۔ آواز کو قید کر کے، ٹیلی فون کے دریافت کر کے الیکزنڈر گراہم بیل نے ایک انقلاب برپا کر دیا
۔جیمس واٹ نے دخانی انجن اور سٹیفنسن نے ریل گاڑی بنا کر عوام کو کثیر تعداد میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کا موقع دیا ۔ فوٹوگرافی جیسی دریافت کر کے نیپسے برادران اور لوئی جیک ڈیگرے نے چیزوں کی تصاویر کو صدیوں محفوظ رکھنے کا جواز عطا کیا۔ ربر دریافت کر کے چارلس گڈایئر نے دنیا کو مہذب اور تیز رفتار بنا دیا، اگرچہ وہ اس دریافت کے دوران شدید معاشی تنگی سے گزرا اور افلاس کی حالت میں وفات پائی۔
پرندوں کی طرح پرواز کرنا انسان کا پرانا خواب تھا اس کی تعبیر گو بیسویں صدی کے آغاز تک پوری نہ ہو سکی لیکن اس حد تک کامیاب ہو چکا تھا کہ زمین سے بلند ہو کر ہوا میں جا سکے، اور یہ غبارے کی مدد سے ممکن ہوا ۔مشہور انگریزی کیمیادان کیوندش نے ثابت کیا کہ ہائیڈروجن نام کی گیس معمولی ہوا سے ہلکی ہے، اسے تھیلے میں بھری جائے اور اس تھیلے کے نیچے ٹوکری باندھ دی جائے تو یہ تھیلا اس ٹوکری کو ہوا میں بلند کر دے گا۔ آگے چل کر رائٹ برادران نے ہوائی جہاز تخلیق کرکے وقت اور فاصلوں کو سمیٹ دیا۔ خلائی سائنس میں ناسا اور اسرو جیسے اداروں کی خدمات دنیا سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ہمارے ملک ہندوستان نے صرف تعلیمی مقاصد کے لیے جی سیٹ تھری جسے "ایڈوسیٹ" کہا جاتا ہے ، 2004 میں خلاء میں کامیابی سے بھیجا اور تعلیم کو عام کردیا۔ لوہے اور فولاد کے دریافت سے بلند و بالا عمارتیں وجود میں آئیں اور لوگوں کی رہائش کے مسائل حل ہوئے۔ میڈیکل اورطبی شعبے میں بے پناہ ترقی سے نئے، فائدہ مند و نقصان دہ خوردبینی جانداروں کی دریافت ہوئی، بیماریوں کی تدارک کے لیے انجکشن ،ٹیکے اور ڈوز دریافت ہوئے۔ اعضاء کی پیوندکاری سے انسانیت کو سہارا ملا۔ ہزاروں کلو میٹر دور بیٹھ کر کمپیوٹر اورمشینوں کے ذریعے مریضوں کا آپریشن کرنا آسان ہوا۔ یہ سب سائنس اور ٹیکنالوجی کی دین ہے، جس نے ہماری صحت اور طرز زندگی کے ہر شعبے کو بام عروج تک پہنچایا، ہم کہہ سکتے ہیں کہ سائنس دانوں نے فکر و تحقیق دی، اساتذہ نے سائنس کو لوگوں تک منتقل کیا اور ڈاکٹروں اور ماہرین شعبہ نے سائنس کو برت کر انسانیت کی لازوال خدمت کی۔
پرانے وقتوں میں طاعون جیسی متعدی بیماریوں نے لاکھوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا مگرآج سائنس نے ان سے زیادہ خطرناک بیماریوں کے جراثیموں کو کھوج نکالا۔ کرونا جیسے امراض پر قابو پانے کے ٹیکے ایجاد کر لیے۔ چونکہ انسانی فطرت بے لگام گھوڑے کی طرح ہے، جیسے آئنسٹائن کے شروعاتی نظریات اور کوششوں کو عملی جامہ پہناکر امریکی سائنسدانوں نے ایٹم بم بنا لیے اور ان کے استعمال سے تباہی بربادی کی وہ تاریخ رقم کی کہ انسانیت لرز اٹھی ۔
نیوکلیئر جنگ کے خدشات سے دنیا ہر وقت بے چین اور صدمے میں رہتی ہے۔ جدید ہتھیاروں کی تیاری اور ان سے منافع کمانے کی دوڑ نے کروڑوں جانداروں کو موت کے گھاٹ اتار دئیے۔ آرام دہ اور طلسماتی زندگی کی چاہت نے فضاء، زمین اور سمندر کو زیر و زبر کر کے رکھ دیا۔ صنعتوں اور ایٹمی ریکٹر سے خارج گیسوں، زہریلے مادوں اور ریڈیائی کچرے نے بہتوں کو بے موت مار دیا۔ گلوبل وارمنگ سے انسان مختلف بیماریوں، خدشات اور پریشانیوں میں گھر چکا ہے۔ بے پناہ ترقی کے باوجود ہرجاندار موت کے خطرات سے دوچار ہے ۔بہرحال سائنس نے انسانیت کی خدمت اور بربادی کے دونوں پہلو عیاں کر دیے ہیں، اب ہماری ذمہ داری ہے کہ مثبت پہلوؤں کو بروئے کار لاتے ہوئے روئے زمین کے جانداروں کی راحت کا سامان پیدا کیا جائے۔