ایک کلام حرم کی سرزمین سے.
نومولودہ بچّہ
الفاظ برتنے والا میں
الفاظ ہی مجھ سے روٹھ گئے
جذبات کو لکھنے والا میں
جذبات کے بندھن ٹوٹ گئے
لفظوں سے بنا کر تصویریں
میں منظر منظر لکھتا تھا
میں پس منظر کو بھی اکثر
کاغذ پہ سجایا کرتا تھا
آنکھوں میں سجا جب اِک منظر
ہر منظر دھندلایا سا ہے
الفاظ ہیں میرے شرمندہ
اعمال ہیں کتنے پراگندہ؟
یہ سوچ کے طاہرؔ نادم ہوں
لبّیک مَیں پڑھتا جاتا ہوں
کعبے کو دیکھتا جاتا ہوں
کعبے سے آنکھ چراتا ہوں
لبّیک سے آنکھیں بھیگتی ہیں
اور اپنا ماضی دیکھتی ہیں
اِک سسکی روح سے اٹھتی ہے
اور دل کو مرکز کرتی ہے
آنکھوں سے پھوٹ نکلتی ہے
خود کعبہ بھی دھندلاتا ہے
اور مجھ کو یقین دلاتا ہے
اللہ کا وعدہ سچّا ہے
لبّیک تو پڑھتا آ تو سہی
دیکھے گا شانِ کریمی کو
جب روزِ محشر اُٹھّے گا
دیکھے گا شانِ رحیمی کو
وہ تیرے گناہ کے پربت کو
ریزہ ریزہ کرڈالے گا
تو حج کر کے جب لوٹے گا
نو مولودہ بچّہ ہوگا
اللہ کی شانِ کریمی پر
ایقان ترا پختہ ہوگا
ایمان ترا پختہ ہو گا
بس خود کو سنبھالے رکھنا تو
دنیا کے سارے جھمیلوں سے
بس دل کو بچائے رکھنا تو
دنیاداری کے میلوں سے
طاہرانجم صدیقی، مالیگاؤں