کالج آف انجینئرنگ منصورہ کے طلبہ و اساتذہ کو اعزاز جدید و منفرد ڈیزائن پیٹنٹ بعنوان "سوپر کپاسٹر اینڈ بیٹری بیسڈ ہائبریڈ انرجی سسٹم فار ٹریک بائک" کو ملی منظوری
Author -
personحاجی شاھد انجم
جولائی 16, 2025
0
share
مالیگاؤں (پریس ریلیز) موجودہ دور میں جب دنیا توانائی بحران، ماحولیاتی آلودگی اور ایندھن کے مسائل سے دوچار ہے، ایسے میں جامعہ محمدیہ ایجوکیشن کے زیر اہتمام جاری مولانا مختار احمد ندوی ٹیکنیکل کیمپس (MMANTC)کے الیکٹریکل اور میکانیکل انجینئرنگ کے سالِ آخر کے طلبہ نے اپنے اساتذہ کی زیرِ رہنمائی ایک جدید، ماحول دوست "تھری وہیلر ہائبریڈ انرجی بائک کا منفرد نمونہ تیار کیا، جسے حکومت ہند (پیٹنٹ آفس، ممبئی) کی جانب سے ڈیزائن پیٹنٹ کی سند سے نوازا گیا ہے۔ یہ پروجیکٹ"سوپر کپاسٹر اینڈ بیٹری بیسڈ ہائبریڈ انرجی سسٹم فار ٹریک بائک" کے عنوان سے رجسٹرڈ کیا گیا۔ یہ ڈیزائن مستقبل کی الیکٹرک وہیکل انڈسٹری میں ایک انقلابی اضافہ ثابت ہو سکتا ہے، خاص طور پر ان خطوں میں جہاں اقتصادی اور پائیدار نقل و حمل کی سخت ضرورت ہے۔ اس کامیاب پروجیکٹ کو تیار کرنے میں محمد باولوالا (میکانیکل انجینئرنگ)، پریم شندے اور پروفل دیسلے(الیکٹریکل انجینئرنگ) ،ان طلبہ نے محدود وسائل کے باوجود بڑے جذبے سے کام کیا، سینکڑوں گھنٹے ورکشاپ، لیب، اور ریسرچ و مطالعہ میں گزارے۔ بآخیراس خواب کو حقیقت کا رنگ دیا۔ وہیں اساتذہ نے نہ صرف علمی رہنمائی دی بلکہ طلبہ کے اندر خود اعتمادی اور تحقیق کی روح کو بھی بیدار کیا۔ ان مخلص اساتذہ میں ڈاکٹر دلاور حسین (ہیڈ، میکانیکل) ڈاکٹر فہد اقبال (ہیڈ، الیکٹریکل)، پروفیسر شہزاد محوی، پ ڈاکٹر تنویر عالم، ڈاکٹر عاقب انجم، ڈاکٹر ساجد نعیم اور دیگر معاون اسٹاف جن کی رہنمائی نے اس پروجیکٹ کو کامیابی تک پہنچایا۔ اس شاندار موقع پر جامعہ محمدیہ کے صدر جناب ارشد مختار اور سیکریٹری جناب راشد مختار نے طلبہ و اساتذہ کو مبارکباد دی اور کہا یہ کامیابی نہ صرف ادارے کی شناخت ہے بلکہ نسل نو کے روشن مستقبل کی ضامن بھی ہے۔ یہ کامیابی ادارہ کے تحقیقی معیار اور اختراعی طرزِ تعلیم کی روشن مثال ہے، جو آنے والے وقت میں مزید سائنسی ترقی اور پیٹنٹ ریسرچ کی راہ ہموار کرے گی۔اسی طرح ڈاکٹر شاہ عقیل احمد (پرنسپل، انجینئرنگ کالج)، ڈاکٹر یعقوب انصاری (پرنسپل، پولی ٹیکنیک)،ڈاکٹر سلمان بیگ (ڈین اکیڈمکس)، ڈاکٹر نوید حسین (ڈین ریسرچ) اور جملہ اسٹاف نے بھی مبارکباد پیش کرتے ہوئے اسے ادارے کی تحقیقی تاریخ کا سنہری باب قرار دیا۔