انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کے صدر حضرت صابر نورانی (مدنی دربار) نے مہاراشٹر اسٹیٹ اردو اکیڈمی کے نئے کارگزار صدر حسین اختر کو مبارکباد پیش کی ۔۔۔۔۔۔۔!!!
Author -
personحاجی شاھد انجم
نومبر 03, 2025
0
share
مالیگاؤں: مہاراشٹر اسٹیٹ اردو اکیڈمی کے نو منتخب کارگزار صدر جناب حسین اختر کو انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کے صدر حضرت صابر نورانی (مدنی دربار) نے دلی مبارکباد پیش کرتے ہوئے اُردو زبان و ادب کے فروغ اور بقاء کے لیے ان کی تقرری کو خوش آئند قرار دیا ہے۔
حضرت صابر نورانی نے کہا کہ "اردو ہماری تہذیب، ثقافت اور شناخت کی زبان ہے، مگر افسوس آج یہی زبان اپنے ہی گھروں میں اجنبی بنتی جا رہی ہے۔ ایسے نازک وقت میں اگر اردو اکیڈمی کی قیادت کسی باصلاحیت، دردمند اور ادبی ذوق رکھنے والی شخصیت کے ہاتھوں میں آئے تو یہ اردو کے لیے نئی صبح کی بشارت ہے۔
"انہوں نے مزید کہا کہ "حسین اختر صاحب سے ہمیں بڑی اُمیدیں وابستہ ہیں۔ آج اردو اخبارات اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں، ادبی رسائل دم توڑ رہے ہیں، اور نئی نسل میں اردو کی ترویج کے لیے سنجیدہ اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔
میری اکیڈمی سے گزارش ہے کہ وہ صرف فنڈز یا ایوارڈز تک محدود نہ رہے، بلکہ اردو کے فروغ کے لیے تعلیمی سطح پر مہم چلائے، صحافتی اداروں کو سہارا دے، اور نوجوان نسل کو اردو کے قریب لانے کے لیے جدید ذرائع استعمال کرے۔
"اس موقع پر حسین اختر صاحب نے حضرت صابر نورانی کے نیک جذبات کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ "اردو اکیڈمی عوام کی امانت ہے، ہم اس کی ذمہ داری کو بھرپور طریقے سے نبھانے کے لیے پرعزم ہیں۔
اردو زبان کو سرکاری دفاتر، تعلیمی اداروں اور عوامی زندگی میں اس کا جائز مقام دلانے کے لیے مؤثر منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اردو کو صرف جذباتی وابستگی کی زبان نہ سمجھا جائے بلکہ اسے عملی اور معاشی امکانات سے جوڑا جائے تاکہ نوجوان اس زبان سے محبت کے ساتھ مفاد بھی حاصل کر سکیں۔" انہوں نے مزید کہا کہ "اردو اخبارات ہمارے سماج کی آواز ہیں۔ اکیڈمی کی اولین ترجیح ہوگی کہ اردو صحافت کو استحکام بخشا جائے، چھوٹے اخباروں اور رسائل کو مالی اور تکنیکی مدد فراہم کی جائے، تاکہ وہ بدلتے ہوئے دور کے تقاضوں کے مطابق خود کو استوار کر سکیں۔" گفتگو کے اختتام پر حضرت صابر نورانی نے دعا کی کہ "اللہ تعالیٰ حسین اختر صاحب کو اردو زبان و ادب کی خدمت کے لیے توفیق عطا فرمائے، اور ان کے ذریعہ مہاراشٹر میں اردو کو نئی زندگی ملے۔" یہ ملاقات نہ صرف ایک رسمی مبارکبادی گفتگو تھی بلکہ اردو کے مستقبل پر ایک سنجیدہ فکری تبادلہ خیال بھی ثابت ہوئی، جس نے اردو حلقوں میں امید کی نئی کرن روشن کر دی۔