2011 کے احتجاجی معاملے میں تمام ملزمان بری اکولہ ضلع و سیشن عدالت کا اہم فیصلہ کھام گاؤں (واثق نوید)
Author -
personحاجی شاھد انجم
دسمبر 19, 2025
0
share
۲۰۱۱ کے احتجاجی معاملے میں تمام ملزمان بری اکولہ ضلع و سیشن عدالت کا اہم فیصلہ کھام گاؤں (واثق نوید) سال ۲۰۱۱ میں پیغمبرِ اسلام حضرت محمد ﷺ کے خلاف فیس بک پر کی گئی ایک متنازعہ پوسٹ کے خلاف ہوئے احتجاج کے دوران پیش آئے مبینہ فرقہ وارانہ تشدد کے معاملے میں اکولہ کی ضلع و سیشن عدالت نے تمام ملزمان کو ثبوتوں کے فقدان کی بنا پر بری کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ موجودہ اوّل ضلع و سیشن جج جناب اے۔ ایس۔ شری ساگر صاحب کی عدالت نے سنایا۔ تفصیلات کے مطابق، سال ۲۰۱۱ میں کارنجہ کے ایک نوجوان نے فیس بک کے ذریعے پیغمبرِ اسلام حضرت محمد ﷺ کے بارے میں قابلِ اعتراض تبصرہ شائع کیا تھا۔ اس کے خلاف اکولہ شہر میں مختلف سماجی تنظیموں کی جانب سے احتجاج اور بند کا اعلان کیا گیا تھا۔ اسی دوران ۲۸ نومبر ۲۰۱۱ کو مسلم نمائندہ کونسل کی جانب سے بند کے موقع پر تلک روڈ واقع مرکزی بازار علاقے میں مبینہ طور پر لوٹ مار، مارپیٹ، گاڑیوں کی توڑ پھوڑ اور سرکاری و عوامی املاک کو نقصان پہنچانے کے واقعات پیش آنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ اس سلسلے میں سٹی کوتوالی پولیس اسٹیشن کے اُس وقت کے پولیس انسپکٹر ولاس پاٹل کی شکایت پر تقریباً ۵۹ افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ ملزمان پر تعزیراتِ ہند کی دفعات ۳۹۷، ۳۹۵، ۳۹۴، ۱۴۳، ۱۴۷، ۱۴۸، ۱۴۹، ۳۲۳، ۳۲۴، ۳۳۶، ۳۳۷، ۴۲۷، ۱۲۰(بی) کے علاوہ عوامی املاک کو نقصان سے بچاؤ قانون کی دفعات ۳ اور ۴، کریمنل لا امینڈمنٹ ایکٹ کی دفعہ ۷ اور مہاراشٹر پولیس ایکٹ کی دفعات ۱۳۵ و ۱۴۰ کے تحت الزامات عائد کیے گئے تھے۔ چارج شیٹ داخل ہونے کے بعد معاملے کی سماعت سیشن عدالت میں ہوئی۔ دورانِ سماعت استغاثہ کی جانب سے شکایت کنندہ و تفتیشی افسر ولاس پاٹل سمیت پانچ گواہوں کے بیانات قلم بند کیے گئے، تاہم عدالت کے نزدیک الزامات ثابت کرنے کے لیے ٹھوس اور قابلِ اعتماد شواہد پیش نہیں کیے جا سکے۔ عدالت نے تمام ملزمان کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے باعزت بری کرنے کا حکم صادر کیا۔ اس معاملے میں ۴۵ ملزمان کی جانب سے ایڈووکیٹ نجیب شیخ نے مؤثر پیروی کی، جنہیں ایڈووکیٹ شیبا ملک، ایڈووکیٹ سہرا ب جاگیردار اور ایڈووکیٹ سید ارباز کا تعاون حاصل رہا۔ وہیں این جی او ’’وحدتِ اسلامی ہند‘‘ کی جانب سے غریب اور محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے ملزمان کو قانونی امداد فراہم کی گئی، جس سے انہیں طویل عدالتی جدوجہد میں سہارا ملا۔ عدالت کے اس فیصلے کے بعد گزشتہ ۱۴ برسوں سے مقدمے کا سامنا کر رہے تمام ملزمان اور ان کے اہلِ خانہ نے راحت کی سانس لی ہے۔