تعزیتی نظم بر وفات ساجد محشر آکولوی از قلم ۔ انس نبیل 8087282020
Author -
personحاجی شاھد انجم
دسمبر 23, 2025
0
share
فیاضی اور خلوص کا پیکر چلا گیا محشر بپا ہوا ہے کہ محشر چلا گیا تھی بزم جس کے دم سے منور چلا گیا یاروں کا یار یعنی وہ اختر چلا گیا اک نسل کو سکھائی ہے جس نے سخنوری نو واردانِ فن کا وہ رہبر چلا گیا مرجھائے گل کا ٹوٹ کے گرنا ہے عام بات افسوس مسکراتا گلِ تر چلا گیا وہ کوہِ عزم و صبر تھا کینسر سے ہلتا کیا بس اپنے رب کے حکم پہ اٹھ کر چلا گیا مشکل زمیں میں کہتا تھا آسانی سے غزل بحرِ سخن کا ایسا شناور چلا گیا سوچیں تو اک جہانِ معانی ہے "آپ و آپ " کس کس طرح یہ لفظ وہ کہہ کر چلا گیا ماضی ہوئیں بٹر جی کی ہوٹل کی محفلیں ساتھ اس کے پر بہار وہ منظر چلا گیا بے لوث و بے ریا تھا سو رکتا بھی کیا یہاں اس دورِ خود نمائی سے اٹھ کر چلا گیا انصاری تھا سو خوں میں ہی مہماں نوازی تھی اسلاف کی وہ یاد دلا کر چلا گیا کمیاب اچھے انساں ہیں شعرا میں آج کل ان میں جو ایک شخص تھا بہتر چلا گیا خدمت سے تھک چکا بھی تھا جاگا ہوا بھی تھا آرام کرنے قبر کے اندر چلا گیا وہ شاہد انجمن ہو کہ نایاب کی ہو بزم ویران کر کے محفلِ جوہر چلا گیا تقریب ہو کسی کی وہ رہتا تھا پیش پیش محفل میں جو لگاتا تھا بینر چلا گیا بسمل ضمیر انجم و حیدر ظفر فراز آنکھوں میں سب کی چھوڑ کے گوہر چلا گیا ثانی و شمس و راشد و نایاب و شاد و فیض فانی کمال سب سے بچھڑ کر چلا گیا بیمار مر چکا ہے دوائی کے باوجود " خود کی قضا پہ مصرع یہ کہہ کر چلا گیا حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا" آمین کہہ نبیل قلندر چلا گیا