آپ دنیا کی تاریخ پر نگاہ ڈالیے، دنیا میں ہمیشہ ایسے لوگوں کی اکثریت ملے گی جو خداکے قائل تھے اور یہ تسلیم کرتے تھے کہ اس دنیا کا پیدا کرنے والا، اس نظام کو چلانے والا کوئی نہ کوئی ضرور ہے۔ یہ اور بات ہے کہ بہت سے خدائوں کو مان لیا گیا اور ان کی عبادت شروع کردی گئی۔ مگر جہاں تک خدا کی ذات کے ماننے کا سوال ہے سبھی اسے تسلیم کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ انبیائے کرام کی تعلیم میں وحدانیت کی تعلیم زیاد ہ دی گئی ہے۔ مگر بے وقوفوں سے یہ دنیا کبھی خالی نہیں رہی۔
آج بھی دنیا میں ایسے احمق مل جاتے ہیں جو بہ ظاہر پڑھے لکھے ہوتے ہیں لیکن باتیں ایسی کرتے ہیں جن کی توقع کسی پاگل یا دیوانے سے ہی کی جاسکتی ہے۔ میری مُراد ان احمقوں سے ہے جنہیں ملحد یا دہریہ کہا جاتا ہے۔یہ لوگ سرے سے خدا کے وجود کے قائل ہی نہیں ہیں۔ حالانکہ خدا کاوجود ثابت کرنے کے لیے دنیا کا یہ سارا کارخانہ کافی ہے۔ کسی اور دلیل کی ضرورت ہی نہیں۔
دنیا میں اَن گنت چیزیںموجود ہیں جن کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا اور ہر روز نئی چیزیں وجود میں آتی ہیں۔ ہمارا روزانہ کا مشاہدہ ہے کہ ہر کام اپنے وقت پر ہو رہا ہے۔ سورج مشرق سے طلوع ہوتا ہے اور شام کو مغرب میںڈوب جاتا ہے۔ رات آتی ہے، ستارے نکلتے ہیں، چاند اپنی آب وتاب کے ساتھ آسمان پر جلوہ گر ہوتا ہے۔ چاندنی پھیل جاتی ہے، پھر دِن آتا ہے اور سورج اپنی کرنیں زمین پر بکھیر دیتا ہے۔ یہ کائنات کا نظام اتنے نظم و ضبط کے ساتھ چلتا ہے کہ دیکھ کر تعجب ہوتا ہے۔ اگر ذرا سی بھی غور فکر سے کام لے تو اسے روز مرہ کے مشاہدات میں خدا کی ہستی اور وجود کے جلوے نظر آئیں، پھر کسی ثبوت کی ضرورت نہ رہ جائے۔
ظاہر ہے کہ ساری کائنات کا نظام کسی منظم کے کیسے چل سکتا ہے۔ ہم عملی زندگی میں دیکھتے ہیں کہ چھوٹی اور بڑی چیز تیار کرنے اور بنانے والے کی ضرورت پڑتی ہے نہ تو کمہار کا مٹی کا پیالہ خود سے بن پاتا ہے اور نہ بڑی بڑی مشینیں خود بنتی ہیں۔ آخر انسان کوعقل و سلیم دینے والا کون؟
سورہ بقرہ میںہے: ’’بلاشبہ آسمانوں اور زمین کی بناوٹ میں، رات اور دن یکے بعد دیگرے آنے میں اور ان کشتیوں میں جو انسان کے کام کی چیزیں لے کر دریاؤں اور سمندروں میں چلتی پھرتی ہیں۔ بارش، جسے اللہ آسمان سے برساتا ہے پھر اس سے زمین کو زندگی بخشتا ہے۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ چشم بینا کے لیے دنیا کی یہ نیرنگیاں اور قدرت کے اس کارخانہ میں خدا کے وجود کی نشانیاں بے شمار ہیںلیکن کوئی اپنی آنکھیں موندلے تو سب کچھ ہوتے ہوئے بھی کچھ نظر نہیں آسکتا۔
سورۂ انبیاء میں ہے: ’’اگر آسمان و زمین میںایک اللہ کے علاوہ کئی اور معبود ہوتے، تو یہ سارا نظام درہم برہم ہوجاتا۔‘‘
امام مالکؒ سے ایک بار پوچھا گیا کہ خدا کی ہستی پر آپ کے پاس کیا دلیل ہے، انہوں نے کہا: ’’دنیا کے اندر مختلف قوموں اور فرقوں کا آباد ہونا، مختلف زبانوں اور مختلف بولیاں بولنے والوں کا پایا جانا خدا کے وجود کی دلیل ہے۔‘‘
امام شافعیؒ نے توت کے پتوں سے خدا کی ہستی کو ثابت کیا ہے۔ توت کا پتّہ جس کا رنگ، مزہ اور شکل و صورت سب ایک ہے لیکن اسی کو اگر ریشم کا کیڑا کھاتا ہے تو ریشم بنتا ہے اور شہد کی مکھی چوستی ہے تو شہد وجود میں آتا ہے۔ بکریاں،گائے اور بیل کی صحت بہتر ہوجاتی ہے۔ ہرن اسی کو چرتے ہیں تو مشک بن جاتا ہے۔ چیز ایک ہے مگر مختلف حالات میں مختلف خصوصیات ظاہر ہو رہی ہیں، یہ کس کی کاری گری ہے؟ خدا کے علاوہ وہ کون ہستی ہے جس نے یہ خوبیاں او رصفات توت کے ایک معمولی پتے میں پیدا کردی ہیں۔




بہترین تحریر
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ بہت خوب