گذشتہ صدی کے ساٹھ ستر کی دہائی کی بہ نسبت آج مسلم معاشرے میں الحمدللہ بے حد تبدیلی دینی اور دنیاوی اعتبار سے نظر آتی ہیں۔ عام آدمی بھی دین اور دنیا دونوں کی تعلیم کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے ۔ سطح غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کے بچے بھی اچھے سے اچھے اسکول میں بھاری بھرکم فیس اداکرکے تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ آج ہمارے شہر کے بیشتر گھر میں کم ازکم گریجویٹ، پوسٹ گریجویٹ، لڑکے لڑکیاں یا بارہویں یادسویں پاس لڑکیاں مل ہی جاتی ہیں اور بہت سے خاندانوں میں دینی تعلیم یافتہ ،عالم یا عالمہ ، حافظ وحافظہ ،مفتی، ڈاکٹر اور انجینئر بھی مل جائیں گے۔ اللہ کے فضل وکرم سے تعلیمی فضا بہت زیادہ مایوس کن نہیں ہے۔
سرکاری اداروں میں مسلم ملازمین کی تعداد پہلے بھی کم تھی اور اب تو دن بدن کم تر ہوتی جارہی ہے ۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہمارے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے پاس ڈگری تو ہےلیکن قابلیت کا وہ معیار نہیں ہے جو درکار ہوتا ہے۔ ملازمت حاصل کرنے کیلئے کسی بااثر سیاسی اور سماجی شخص کا سفارشی خط نہیں ہوتا ۔ یا ملازمت حاصل کرنے کیلئے لاکھوں میں رشوت دینے کی طاقت نہیں ہوتی ۔بہرحال والدین تو سخت مشکلات اور مصائب کا سامنا کرتے ہوئے اپنے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں لیکن ملازمت کی عدم دستیابی سے والدین خود اور ہمارے نوجوان بھی مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ مسلم معاشرے میں تعلیم سے عدم دلچسپی کی ایک بڑی وجہ ملازمت کا نہ ملنا بھی ہے۔
آج اپنے اس مضمون کے ذریعے ہم ہمارے معزز سرپرست حضرات اور والدین سے گذارش کریں گےکہ وہ اپنے بچوں اور بچیوں کو اعلیٰ تعلیم ضرور دلائیں ۔ لیکن تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ انھیں ہنر مند اور باکمال بھی بنائیں۔
والدین کو معلوم ہونا چاہئے کہ بچے دسویں پاس کرنے کے بعد جونیئر کالج میں داخل ہوتے اور آرٹس ، سائنس یا کامرس میں داخلہ لیتے ہیں۔ سائنس کے طلبہ زیادہ تر توڈاکٹر یا انجینئریا فارمسیسٹ بننے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ اس لیے وہ کسی دوسری طرف دھیان نہیں دیتے لیکن وہ طلبہ جو آرٹس اور کامرس میں داخلہ لیتے ہیں وہ بارہویں پاس کرنے کے بعد B.A. یا B.Com کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ ان طلبہ کے پاس ضرورت سے زیادہ فرصت کا وقت ہوتا ہے۔ کیونکہ ۱۱؍ویں اور بارہویںکی کلاسیس 12:00 بجے تک اور سینئر کالج کی کلاسیس 11:00 بجے تک ہی جاری رہتی ہے ان طلبہ کے پاس مسلسل 5سال تک آدھا دن مکمل طورسے فارغ رہتا ہے۔ لیکن نہ والدین اور نہ ہی طلبہ ان اوقات کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ہم چاہیں گے کہ ہمارے طلبہ ان 5سالوں میں زیادہ سے زیادہ سات آٹھ ہنر یاکم سے کم 5ہنر حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ جونیئر کالج میں 2ہنر اور سینئر کالج میں 3ہنر۔
گریجویشن مکمل کرنے کے بعد بہتر ہوگا کہ ہمارے نوجوان ملازمت نہ کرتے ہوئے تجارت کی طرف رخ کریں۔ کوئی بہت بڑا منصوبہ نہ بناتے ہوئے چھوٹا موٹا کا روبار اللہ کا نام لے کر شروع کریں۔ اگر وہ اپنا کاروبار کو ایک پختہ عزم ، استقلال ، ایمانداری ، سچائی، صبر اور شکر کے ساتھ شروع کرتےہیں۔ تو اللہ رب العزت یقیناً ان کے رزقِ حلال کے حصول میں مدد فرمائیں گے۔ ہمارے نوجوانوں کوپہلی ترجیح خود کے کاروبار کو دینا چاہیۓ۔ حضورِ محتشم ﷺنے خود بھی تجارت کی اور اپنےصحابہؓ کو بھی تجارت کی تلقین کی۔
مربوط کامیابی ہے وارستگی کے ساتھ رکھ راہ پُرخطر میں قدم پختگی کے ساتھ
طلبہ وطالبات دوران ِ تعلیم درج ذیل ہنر سے اپنے آپ کو آراستہ کرسکتے ہیں۔
ہنر برائے طلباء : کمپیوٹر کے دس بارہ قلیل مدتی کورسیس مثلاً ڈی ٹی پی اور Talley، ڈرائیونگ ،الیکٹریشین ، ویلڈنگ، گھڑی سازی ، اسٹیل فرنیچر ، سلائی، موٹر وائنڈنگ، آٹو موبائل میکینک موبائل ریپئرنگ، فیبریکیشن (المومنیم اور اسٹیل) ، مٹھائیاں بناناوغیرہ
ہنر برائے طالبات: سلائی، برقعہ سلائی، نرسری(پودوں کی دیکھ بھال) ، بک بائنڈنگ ، کھڑیاں بنانا، مربع جات تیا رکرنا، مختلف قسم کی چٹنی ، مختلف قسم کے پکوان تیار کرنا ، کیک بنانا، Pizza بنانا ،مٹھائیاں بنانا،اسکول بیگ وغیرہ ۔ گوگل پر بہت ساری ویب سائٹ دستیاب ہیں۔ جہاں پر لڑکیوں کو 30 سے زائدہنر فری میں سکھائے جاتے ہیں۔ شرط: بھرپور دلچسپی اور لگن ہے۔
آج دور انٹرنیٹ کا ہے۔ کچھ ہنرایسے ہیں جسے لڑکے اور لڑکیاں سیکھنے کے بعد اپنی تیار کردہ اشیاء ، کھانے کی چیزیں آن لائن فروخت کرسکتے ہیں۔ آج اپنا مال سرپر رکھ کر گلی گلی گھوم کرفروخت کرنے کی ضرورت نہیں ۔ ہر ہنر مکمل دل لگاکر حاصل کریں اور جو بھی ہنر اختیار کریں اس میں بھرپور مہارت اور کمال حاصل کرنا ضروری ہے۔ طلبہ ان باتوں پر غور کریں اور اپنے مستقبل کو تابناک اور روشن بنائیں۔ یادرہے ان میں سے کچھ ہنر دورانِ تعلیم حاصل کرنا ہے۔
والدین کو اپنی بیٹیوں کے مستقبل کی بے پناہ فکر ہوتی ہے۔ ہر کوئی چاہتا ہے کہ شادی کے بعد ان کی لڑکیاں انتہائی خوش حال اور معاشی پریشانیوں سے آزاد زندگی بسر کریں ۔ اگر ہماری بچیاں باہنر، باکمال ہوجاتی ہیںتو یقیناً اپنا خود کا چھوٹاموٹا کاروبار کرکے گھر کی آمدنی میں اضافہ کرسکتی ہیں۔ جس سے شوہر اور دیگر افرادِ خاندان بھی خوش رہیں گے۔ معاشی تنگی نہ ہونے سے گھر میں چین، سکون ، خوش حالی ہوگی اور یقیناً دین داری بھی اس گھر میں درآئے گی اور اللہ کے احکامات اور رسول اکرم ﷺ کے بتلائے ہوئے طریقے پرپر ہماری زندگی بسر ہوگی تو سوچئے ہمارا معاشرہ کتنا شاندار اور قابل رشک ہوجائےگا۔ اس لیے اپنے بیٹے اور بیٹیوں کو ہنر مند بنایئے جب ان کے پاس ہنر ہوگا تو ان کی قدر ہوگی۔
والدین اس بات کواچھی طرح ذہن نشین کرلیں کہ لڑکے اورلڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم یافتہ، باہنر اور باکمال بنانے کیلئے بچپن ہی سے ان کی تربیت اس انداز کریں کہ وہ دین دار اور اچھے مسلمان بن جائیں ۔ لڑکیوں میں فاطمۃ الزہرا ؓکی صفات اور لڑکوں میں حضرت اسماعیلؑ کی طرح والدین کی اطاعت کا جذبہ پیدا ہوجائےاور ہمارے بچے اور بچیاں تعلیم یافتہ بھی ہوں اورہنر مند بھی ، تاکہ ان کی دنیاوی زندگی بھی خوشگوار ہو اور آخرت بھی سنور سکے ۔
تم شوق سے کالج میں پھلو، پارک میں پھولو
جائز ہے غبارہ میں اڑو، چرخ پر جھولو
بس ایک سخن ،بندۂ عاجز کی رہے یاد
اللہ کو اور اپنی حقیقت کو نہ بھولو