تحریر۔ افضال انصاری
9890141758
الحمدللّٰه،دور حاضر میں جب شہر عزیز میں ادبی وثقافتی تقاریب کا مشاہدہ کیا جاۓ تو قلبی خوشی ہوتی ہےکہ اردو زبان و ادب،آہستہ آہستہ عروج کی کن بلندیوں کو چھوتا جا رہا ہے۔بے حدخوشی ہوتی ہے جب ہفتہ دو ہفتہ بھی گذرنے نہیں پاتا کہ کسی نہ کسی ہال میں کسی نہ کسی ادیب کی کتاب کا اجراء عمل میں آتا ہے۔مختلف قسم کی اصناف پر تحریر کردہ تخلیقات،ادب کے باذوق قارئین تک پہنچتی ہیں اور اپنی کاوشات کی داد وصول کرتی ہیں۔مبصر حضرات اپنے تبصروں سے اور ادب نواز ہستیاں اپنی آراء سے ان کی کاوشوں کا اعتراف کرتی ہیں۔
شعراءحضرات اپنی تخلیقات، حمد،نعت،منقبت،نظموں اور غزلوں سے،نثر نگار اپنے مضامین سے اور ڈرامہ نگار حضرات اپنے تحریر کردہ ڈراموں کو کتابی شکل دے کر ادب کی آبیاری میں شب و روز مصروف ہیں۔یہ تو ہم نے ان تمام لکھنے والوں کے متعلق بتایا جن کی تخلیقات،کتابی شکل میں چھپ کر عوام الناس تک پہنچیں۔لیکن بہت سے ایسے بھی قلمکار ہیں،جن کی تخلیقات زیور طباعت سے آراستہ نہیں ہو سکیں۔لیکن ان کے قریبی رفقاء،دوست احباب اور رشتہ داروں ،نیز ادب نوازی کا شعور رکھنے والوں نے کافی سراہا اور ان کی کاوشوں کا اعتراف کیا۔ایسے شعراء اور ادباء کے متعلق اکثر سنائی دیا کرتا ہے۔
لیکن ایک شاعر کے متعلق پتہ چلا ہےکہ وہ عام روش سے کچھ ہٹ کر ہیں۔انہوں نے اپنی شاعری میں صرف نعت گوئی کو پسند فرمایا اور ایسی ایسی نعتیں لکھ کر اپنے قرب و جوار کے لوگوں کو سناتے رہے کہ بس داد ہی دیتے بنتی ہے۔ویسے ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ صنف نعت گوئی میں صرف اردو شعراء ہی نہیں،کافی کچھ غیر اردو داں افراد نے بھی طبع آزمائی کی ہے۔اردو کے علاوہ دوسری زبانوں میں بھی حضور اکرمﷺ کی شان میں تعریف و توصیف کی کئی مثالیں ملتی ہیں ،اور ہماری علاقائی زبان مراٹھی میں بھی کیٔ شعراءنے نعت پاک لکھ کر حضورﷺ کی شان اعلیٰ کا اعتراف کیا ہے ۔یہ دلیل ہے اس بات کی کہ حضورﷺ کے اوصاف حمیدہ نے بت پرستوں اور 33کروڑ خداؤں کے ماننے والوں کو بھی متاثر کیا ہے ۔
لیکن جب ہمیں پتہ چلتا ہے شہر عزیز میں ایک ایسے مسلم سادہ دل ،سادگی پسند اور سادگی شعار ڈاکٹر صاحب بھی ہیں جو نعت پاک مراٹھی زبان میں کہتے ہیں،تو جہاں خوشی ہوتی ہے وہیں اچنبھا بھی ہوتا ہے کہ جس شخص نے بچپن سے مراٹھی زبان پر کچھ خاص عبورحاصل نہیں کیا تھا،پرائمری اور ہائی سکول کی تعلیم کے دوران جس کے لیے مراٹھی صرف ایک مضمون تھا،اور بس ۔لیکن اپنی ڈاکٹری کی پریکٹس کے لیے جس نے رتناگری کے علاقے کا رخ کیا ،اور برسہا برس تک وہاں کے آدی باسی افراد کا علاج کرنے کے دوران انہیں مراٹھی زبان پر عبور آتا گیا اور ماشاءاللہ اتنا اچھا خاصا عبور آگیا کہ انہوں نے شعر گوئی کی طرف توجہ فرمائی،اور شعرگوئی بھی کوئی دوسری قسم کی نہیں،صرف نعتیہ شاعری ۔،تو ایک لمحہ کو ہر حساس دل کچھ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔۔۔حضرات، شاعری کے لیے ضروری ہے کہ جس زبان میں کی جارہی ہے اسی زبان میں سوچنا پڑتا ہے ۔اپنے احساسات کو اس زبان کے قالب میں ڈھالنا پڑتا ہے ۔اپنے محسوسات کو اس زبان کےرموز ونکات کا پابند کرناپڑتا ہے ،پھر شعر بنتے ہیں۔
شہر عزیز کے ان ڈاکٹر شاعر صاحب کوجنہیں دنیا عتیق فہمی کے نام سے جانتی ہے ،نہ صرف ظاہری وضع قطع سے سادگی پسند ہیں بلکہ ویسا ہی سادہ دل بھی اپنے پہلو میں رکھتے ہیں ۔اس دل میں رسول اکرم ﷺ کی محبت کو مراٹھی جیسی زبان کے قالب میں ڈھالتے ہیں۔آئیے، ہم ان کی مراٹھی نعتیہ شاعری کےکچھ نمونے آپ کے سامنے رکھیں۔قارئین کی آسانی کے لیے رسم الخط دیوناگری کے بجائے اردو میں لکھے جا رہے ہیں ،کہ پڑھنے میں آسانی ہو ۔ملاحظہ ہو ۔
ماجھیاجیونا چا آسرا تمہی آہات،ماجھیا منا مدھے ماجھے اوُرجا تمہی آہات۔
طوفان مدھے نوکا ماجھے،ماجھیا نوکاچاکنارا تمہی آہات۔
جیوناچا مارگ کٹھن آہے،یا مارگاور مارگ درشک تمہی آہات۔
پور و پچھم ،اتر دکھن،کاڑوکھ آہے،یا کاڑوکھیا چا سوریہ تمہی آہات۔
آمنہ چے پریہ،حلیمہ چے پریہ، گریبانچے پریہ ،فہمی چے پریہ تمہی آہات۔(میری زندگی کا سہارا آپﷺ ہیں۔میرے من میں میری توانائ آپﷺ ہیں ۔میری کشتی طوفان میں ہے ،اس کشتی کا کنارہ آپﷺ ہیں ۔زندگی کا راستہ کٹھن ہے ،لیکن اس راہ کے رہبر آپﷺ ہیں۔مشرق مغرب شمال جنوب ہر طرف اندھیرا ہے ،اس اندھیرے کے سورج آپﷺ ہیں۔آمنہ کے پیارے ،حلیمہ کے پیارے ،غریبوں کے پیارے اور فہمی کے پیارے آپﷺ ہیں۔) یا پھر۔۔
جیاچے حکما ور سوریہ پرتون آلا،بولا بولا کون آہے تے۔۔۔حبیب نا،شفیع نا،نبی نا۔جیاچے اشاریانی چندراچے تکڑے جھالے۔۔۔بولا بولا کون آہے تے۔۔۔۔جیانچے آدیشانی دھرن بوٹاتون نگھون آلے۔۔۔بولا بولا کون آہے تے۔جیانچہ اچھّے نے دگڑ بولو لاگلے۔۔۔بولا بولا کون آہے تے۔۔۔۔جیانچہ بولنیا ورجھاڑ چالو لاگلے۔۔۔بولابولا کون آہے تے۔۔۔جبیب نا،شفیع نا،نبی نا۔جیانچے ور فہمی نے درودوسلام پاٹھولے،سروانی سلام پاٹھولے،کون آہے تے۔۔(جن کےحکم سے سورج پھر سے طلوع ہوا،کہو کہو کون ہے وہ۔حبیب نا،شفیع نا،نبی نا۔۔جن کے اشارے سے چاند کے ٹکڑے ہوۓ۔۔۔بولو بولو کون ہے وہ۔جن کے حکم سے انگلیوں سے پانی کا چشمہ جاری ہوا،بولو۔بولو کون ہے وہ۔۔۔۔جن کی خواہش پر پتھر بولنے لگے۔۔۔۔جن کے کہنے پر درخت چلنے لگے۔۔۔۔۔۔۔۔بولو بولو کون ہے وہ۔۔جن پر فہمی درودوسلام بھیجتا ہے،سبھی لوگ سلام بھیجتے ہیں، بھلا بتاؤ وہ کون سی ہستی ہے۔)
حضرات!بہت کم لوگوں کو یہ خوبی عطا ہوتی ہے جو اپنی بات دوسری زبان میں کہہ کر غیر اردوداں طبقے کو متاثر کرتے ہیں اور انہی کی زبان میں دسترس حاصل کر کے ان کے سامنے حضوراکرمﷺ کے اوصاف حمیدہ اس خوبی سے رکھتے ہیں کہ ان کے دلوں میں آپﷺ کی زندگی اور تعلیمات،گھر کر جائیں اور وہ اندر سے حضورﷺ کے گرویدہ ہو جائیں ۔دور حاضر میں جہاں کئ طاغوتی قوتیں حضورﷺ کی شان میں گستاخی کی مرتکب ہوتی رہتی ہیں،ایسے میں ڈاکٹر فہمی عتیق احمد کی یہ کاوش یقیناً قابلِ تعریف ہے۔ہماری دعاء ہے خدا انہیں اس راہ پر چلنے کی مزید توفیق عطا فرماۓاور انہیں فکروآگہی کے نۓ سورج عطا فرماتا جاۓ،آمین۔
بہت عمدہ تحریر ہے، سچ میں پڑھنے کے بعد سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
جواب دیںحذف کریں