اردو ایک لشکری زبان ہے۔اور جنوبی ایشیاء کی ایک بڑی اور سب سے اہم زبان ہے۔اردو میں عربی ،فارسی
اور ترکی کا اثر نظر آتا ہے۔اس زبان کا جنم بارہویں صدی کے بعد ہوا ہے۔اس زبان کو ہمارے بڑوں نے اسے اپنے خون جگر سے اسے سنچا اور اس کی نشونما کی۔اسے شرینی عطا کی۔اسے شاندار اور جاندار بناۓ
رکھنے کےلیۓ اس میں دوسری اور علاقائی سطح پر بولی جانی والی بولی بھاشا کے لفظوں کو شامل کیا اور دلچسپ بناتے ہوۓ اسے ہر خاص و عام کی مقبول زبان بناکر اسے اس قابل بنایاکہ اسے سننےوالا اسے دلچسپی سے سنتا ہے۔ہر خاص و عام کو اپنی طرف متوجہ کرنے والی زبان آج لاغر و لاچار ہوکر رہے گئ ہیں۔
اس کے لیئے خود اردو والے ذمہ دار ہے۔اس کا ادب اس لاچاری اور لاغری کے دور میں بھی ہمیشہ تازہ اور توانا رہاہے۔لیکن جب اسے خرید کر پڑھنے کی بات آتی ہےتو یہ قارائن کو بڑا مسلہ معلوم ہوتا ہے۔اگر قلم کار حضرات اردو کے اخبارات و رسائل جو انھیں پسند ہے۔اسے میں سے کوئی ایک کو بھی خریدکر پڑھنے والے بن جاۓ اور اس تحریک کو مہم کے طور پر سماج میں اس رحجان کو پیدا کرے تو اردو کے اشاعتی سلسلے کو آسان بنایا جاسکتا ہے۔جبکہ یہ بات روشن ہےکہ ادب کسی زبان کا ہو یہ ایک بہت بڑا میدان ہے۔اس میدان میں آنے والا قلم کار بہترین ذہنی و فکری صلاحیتوں سے پر ہوتا ہے۔وہ اسے اپنے مطالعہ و نظر کی گہرائی اور مختلف علوم و فنون سے ایب اسے دلچسپی عطا کرتا ہے۔اور ویسے بھی
اردو ادب کا سب مقبول فن اس میں کی جانے والی
شاعری ،افسانہ نگاری اور صحافت قاری کو اپنی طرف متوجہ کیۓ بنا نہیں رہتی۔اس لیئے کہ ادب باالخصوص اردو ادب چاہے و شاعری ہو ، کہانی ، افسانہ ، مضمون ، سفر نامہ یا اور کوئی صنف ہو ، اس میں قاری کو مظلوم اور ناانصافی کی شکار مجموعی انسانی برادری کے دکھ۔درد کی عکاسی کی نمائندہ تحریریں ہوتی ہیں۔اس زبان نے ہمیشہ پیار ۔
محبت ، اخوت۔بھائی چارگی ، امن و سکون ، پھول۔
خوشبوں حسن ،بہار کا نہ صرف درس دیا بلکہ اس کے قیام کےلیئے جدوجہد بھی کی ہیں۔لیکن ادیب کو رہنماؤں ، سیاست دانوں ،سرکاری۔درباری نمائندگان کی جانب سے ملنے والی تعریف سے متاثر ہوکر اپنی قلمکاری کو حقیقت سے دور نہیں ہونا چاہیۓ۔اسی طرح آئینہ دیکھانے والے ادباء شعراء میں ایک مرض لاحق ہوگیا ہےکہ کسی بھی شعبے کے خادم کو سیاسی ،سماجی یا مذہبی جماعت اور برادری کے نظریئے سے دیکھاجاتا ہے۔یہ رحجان شعراء ادباء میں ادب کی تہذیب میں نہیں ہے۔ایسا کرنے سے خود ان کا
ادبی سرمایہ متاثر ہوتا ہےاور ایک وقت اس کے مقبول عام ادبی تخلیق پر بھی کسی مخصوص فکر تاثر ہونے کا لیبل لگ جاتا ہے۔سائنسی اور تکنیکی تعلیم کتنی بھی ترقی کرلے وہ روایتی گفتگو ،اعتراف ،حمایت ،برائیوں کی نشاندہی ، روک۔
ٹوک ،اصلاح معاشرہ کے ذرائع کی جگہ نہیں لے سکتی۔سماج کے عام آدمی کو ادب سے جوڑنے کےلیئے ادب کی نشستوں کے ذریعے ادباء اور شعراء کے درمیان گفتگو اور دیگر تقریبات کا سلسلہ ضروری ہے۔
اردو قلمکار کو نازک ، نفییس اور کٹھن الفاظ کے استعمال کرنے کی بجاۓ عام قارائن تک اپنی نگارشات پہونچ سکے ایسے آسان اور موجودہ دور کی تکنیکی زبان کا استعمال کریں۔اردو کی ترقی کے تعلق سے اردو ادباء کو چاہیئے کہ وہ کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوۓ دیگر زبانوں کے رائج الفاظوں کو قبول کریں۔تاکہ اردو زبان و ادب کی ترقی کی راہیں ہموار ہوسکے۔کیونکہ اصناف ادب سماج کا آئینہ ہے۔