تاریخ عالم کے اوراق اس بات کے شاہد ہیں کہ کہ دنیا کی رنگینی ،اس کی کشش اور دم بخود اور بے خود کر دینے والی ایجادات کتب بینی کی مرہون منت ہیں دنیا بھر کے ناول نگار ،افسانہ نگار ،شعراء، ادبا ، ڈرامہ نویس ،صحافی اور کالم نگار مطالعہ اور کتب بینی کے احسان تلے دبے ہوئے ہیں بڑے بڑے ڈاکٹرس اور اور انجینئرسں جب تک مطالعہ اور کتب بینی کے زیور سے آراستہ نہیں ہوئے ، ڈگریوں سے محروم رہے۔
کتب بینی نے خاک کے اس پتلے کو اوج ثریا تک پنہچا دیا۔پڑھنا تو اسلام کی روح ہے کہ پہلی وحی پڑھنے کے کے تعلق سے آئی ہے ۔خود ہمارے اپنے شہر میں جس نے مختلف کتابوں کا مطالعہ کیا ۔ اسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ کتابوں سے بڑھ کر کوئی جلیس نہیں ۔ ایک بہترین مقرر اور واعظ وہی ہوتا ہے جو سینکڑوں کتابوں کا مطالعہ کرچکا ہوتا ہے ۔
جس کے اندر جنوں کی حد تک کتب بینی کا شوق ہوتا ہے۔دینی اور ادبی و نصابی کتابوں کے مطالعہ کا ذوق رکھنے والوں کا رکھ رکھاؤ بھی منفرد ہوتا ہے گفتگو کرنے کا انداز جداگانہ ہوتا ہے اگر وہ معلم ہے توطلبإ اسے اپنا آئیڈیل تصور کرتے ہیں مطالعہ کا شوق رکھنے والوں کا سماج میں ایک اہم مقام ہوتا ہے لیکن افسوس صد افسوس آج ہمارے نوجوان کتب بینی سے کوسوں دور ہیں ۔ شہر کی لائبریریاں سونی سونی ہیں ۔ بیشتر کتب خانے تو بند ہو چکے ہیں ۔
جو زندہ ہیں۔ وہ ُُُ ُ کوما ٗ ٗکی حالت میں ہیں۔ کل شہر کی لائبریریوں میں اخبارات کا مطالعہ اور کتابوں کو حاصل کرنے کے لیے منتظر رہنا پڑتا تھا آج کوئی پرسان حال نہیں ہے آج کی ہماری نسلوں کو اور آج کے ہمارے نوجوان کو؟ کل پاورلوم مزدور بھی لوم چلاتے ہوئے ہوئے۔ روزانہ کم از کم ایک کتاب ضرور پڑتا تھا ۔ چاہے وہ ابن صفی کا ناول ہو مظہر الحق علوی کا ناول ہو یا کوئی اور رومانی ناول۔ لوم چلاتے ہوئے بہت سارے مزدور تو دینی کتب کا بھی مطالعہ کرتے تھے ۔احقر کئی ایسے اشخاص کو جانتا ہے ہے جنہیں میر، مومن ،غالب ،اقبال، ذوق جیسے پائے کے شعرإ کے ہزاروں اشعارازبر تھے۔ ظاہر ہے یہ کمال انہیں مطالعہ اور کتب بینی سے ہی حاصل ہوا ۔
بہتہت سارے کالج کے طلباء کیٹس ،باٸرن،وڈس ورتھ کی نظمیں زبانی سنایا کرتے تھے۔ شیکسپیئر اور ملٹن کے ڈراموں  کو رات میں اسٹریٹ لائٹ کے نیچے پڑھا کرتے تھے۔ آج ہمارا نوجوان بھی اسٹریٹ لائٹ کے نیچے  رات بھر بیٹھتاہے لیکن اس کے ہاتھ میں میں کتاب نہیں ہیں بڑے والا موبائل ہوتا ہے  رات بھر وہ کیا دیکھتا ہے وہ بتانے کی قطعی ضرورت نہیں۔
اگر موباٸیل بینی سے مطالعہ میں اضافہ ہوتا ہے تو خدارا مجھے بتانے کی زحمت گوارہ فرماٸیں کہ موباٸیل پڑھکر کتنے ڈرامہ نویس تیار ہوے ۔موباٸیل پڑھکر کتنے نٸے شعرإ وجود میں آٸے ؟
اس لیے ھمارے وہ تمام نوجوان جو دن رات اپنی آنکھیں موباٸیل فون استعمال کریں۔اور اپنا قیمتی وقت ساٸنسی ،دینی،اصلاحی اورادبی کتابوں کے مطالعے میں صرف کریں۔اہلیان شہر مالیگاوں بڑے خوش نصیب ہیں کہ انھیں ایک اچھا موقع مل رہا ہے کہ شہر عزیز میں اردو کتاب کا انعقاد ہوا ہےمنتظمین قابل مبارکباد۔ شہر کا ہر طبقہ اس سے مستفیض ہو ۔اور اساتذہ کرام اپنے گھر کی لایبریری کی کتابوں میں اضافہ کریں۔
ایک کتاب اپنے لیے ٗایک بچے کیلیے اور ایک کتاب گھر کی خواتین کیلیے ضرور خریدیں اور کتاب میلے کو کامیابی سے ہمکنار کریں۔۔۔خاکسار بھی اپنی تمام نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہے۔