تحریر
(محمد شاکر ہمدرد)
رسوڑ
9226444448
شیر خاندیش کے نام سے اپنی منفرد شناخت بنانے والے محسن امت اور ہے با کانہ صحافت کا بادشاہ حق کا ساتھی ، چاہے وہ ماب لانچنگ کا معاملہ ہو، این آرسی، سی اے اے، ہندو مسلم فساد، بابری مسجد کا فیصلہ ہو، شاہین باغ میں بیٹھی مظلوم ما ں بہن بیٹیوں کے حقوق کا معاملہ ہو ، عید الاضحٰی میں جانوروں کے ذبیحہ کا معاملہ ہو، لو جہاد ، دستور کی حفاظت ، قومی املاک کی حفاظت، بکاؤں میڈیا ہو ، دینی مدارس کی حفاظت ، قومی یکجہتی کی ترویج و تشہیر ، سماج میں پھیلی بے جا رسومات ہو۔ دنیا کے ممالک میں آپسی معاملات کو لیکر جنگ جیسے حالات ہو ان سب پر بے با کانہ قلم اٹھایا ہے اور یہ ثابت کر دیا کے ہم باطل سے ڈرنے والے نہیں چاہے وہ دنیا کو کیسے ہی ڈراؤنے خواب دکھائے بقول شاعر
مرجائے گے ایمان کا سودا نہ کریں گے.
مفتی صاحب کو مولانا آزاد ایوارڈ کا ملنا قابل ستائش کام ہے جس کے مفتی صاحب مستحق بھی ہے ملک کے پہلے وزیر تعلیم ۔ مجاہد آزادی کی زندہ و دلیرانہ صحافت جو مولانا کا خاصہ تھی ۔ملک عزیز کو اس بے باکانہ صحافت کی ضرورت بھی تھی اسی صحافت کی تقلید مفتی محمد ہارون ندوی نے کی ہے اس لیے مفتی صاحب کو جمعیتہ علماء ضلع جلگاؤں اور حفاظ فاونڈیشن کی جانب سے اس ایوارڈ کا تفویض کیا جانا حق با جانب ہے۔ مفتی صاحب کی صحافت دنیائے صحافت کے لیے بہترین اثاثہ ہے جس پر چل کر دُنیا میں امن و امان و ترقی کی راہیں ہموار کی جاسکتی ہے
قلم اور کلام انہی دو ہتھیار کا بخوبی استعمال کرکے دُنیا میں انقلاب لایا جاسکتا ہے۔اسرا رالحق مجاز کی ایک طویل نظم کے چند اشعار جس کی جھلکیاں مفتی محمد ہارون ندوی کی شخصیت میں دیکھنے کو ملتی ہے
جلال آتش و برق و سحاب پیدا کر
اجل بھی کانپ اٹھے وہ شباب پیدا کر
تو انقلاب کی آمد کا انتظار نہ کر
جو ہو سکے تو ابھی انقلاب پیدا کر
دعا ہے کے شیر دل صحافی مفتی محمد ہارون ندوی کی عمر دراز کرکے قلم اور تکلم میں دن دُگنی رات چوگنی ترقی عطا کریں۔ خصوصاً ملک عزیز میں فرقہ پرست تنظیموں کے ناپاک منصوبوں کو ناکام کرکےملک عزیز میں امن کی فضاء کو قائم کریں۔ (آمین) وائرل نیوز لائیو کے ڈائریکٹر اور کئ ملی تنظیموں سے منسلک شیر خاندیش مفتی محمد ہارون ندوی کو سلام۔ دور حاضر کی اس عظیم وعقیر شخصیت کے لیے ایک شعر میرے ذہین کو دعوت سخن دیتا ہے کہ
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا