یہ سبھی جانتے ہیں کہ ہر ملک میں ہر مذہب میں اپنے مذہبی تہوار مخصوص دن پر منائے جاتے ہیں۔ ملک و بیرون ملک میں تہواروں کے علاوہ بھی کچھ ایام منائے جاتے ہیں۔ یومِ اطفال، یومِ مزدور اور یومِ نوجوان وغیرہ وغیرہ۔
عالمی یومِ خواتین کا آغاز ۸؍مارچ ۱۹۰۹ء میں نیویارک سے ہوا تھا۔ اقوامِ متحدہ نے ۱۹۷۷ء میں اسے اپنے عالمی دنوں میں شامل کیا۔ آج خواتین اپنے بنیادی حقوق سے آگاہ ہورہی ہیں اور وہ اپنی علاحدہ شناخت بھی بنارہی ہیں۔
خواتین کو نہ صرف ان کے حقوق سے آگاہ کرنے کے لیے بلکہ ان کا رتبہ ومقام بڑھانے کے لیے خواتین کا دن منایا جاتا ہے۔
دنیا کے مذاہب میں عورت ہمیشہ ظلم وجور کی شکار رہی۔ محسنِ انسانیتؐ کی آمد سے قبل دنیا میں محکوم وکم تر سمجھی جاتی تھی۔ عورت جائیداد کی وارث نہیں بلکہ جائیداد کا ایک حصہ تھی جو ترکہ میںتقسیم کردی جاتی تھیں مگر قربان جائیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر جس نے تعلیمی میدان میں انقلاب برپا کیا تھا۔
علمِ طب و جرّاحی میں ۔۔رفیدہ اسلمیہؓ ، ام عطیہ ؓ ، ام مطاع ؓ ،
علم کتابت ۔۔۔حضرت حفصہؓ ،ا م کلثومؓ ، کریمہؓ ۔ علم زراعت ۔۔ حضرت اسماءؓ۔ تجارت ۔حضرت خدیجہؓ ، حضرت خولہؓ ، حضرت ملکہؓ ۔
جنگِ اُحد ۔۔۔ حضرت امِ عمارہؓ جنگِ خندق۔۔۔ حضرت صغیرہؓ۔ جنگِ حنین ۔۔۔ حضرت ام سلمہؓ
علم سیاسیات۔۔۔ حضرت شفاءؓ بنت عبداللہؓ کو خاص امتیاز حاصل تھا۔
اللہ جل شانہ نے جس گھر میں عورت بھیجا رحمت بناکر بھیجا۔ تاریخ اسلام کا آپ مشاہدہ ومطالعہ کرتے جائیے آپ کو خواتینِ اسلام اپنے بلند مرتبہ پر فائز نظر آئیں گی۔
محترم قارئین! اسلام نے خواتین کو بہن، بیٹی اور بیوی کے کردار میں ایثار وقربانی، غم گساری کے اعلیٰ ترین مقام پر پہنچادیا ہے۔
دانش ور قارئین! کیا ہندوستان جنت نشان میں خواتین کی عصمتیں محفوظ ہیں؟ ملازمت پیشہ خواتین دفتروں میں محفوظ ہیں؟ کیا دفتروں میں حریص نگاہوں سے بچی ہوئی ہیں؟ کہیں مندروں میں داسی بناکر بھینٹ کردی جارہی ہیں؟ کہیں گھریلو تشدد کا شکار تو کہیں شوہر کی ظلم وزیادتی کا ۔ کہیں جہیز نہ دینے پر خواتین ماں باپ کی دہلیز پردم توڑ رہی ہیں۔ کئی گھروں میں مردوں کے بعد دوم درجے کا انسان خواتین کو سمجھا جاتا ہے۔ یہ امتیاز نہیںتو کیا ہے؟ کئی ایسے گھر بھی ہیں جہاں مردوں کے کھانے کے بعد خواتین کو کھانا ملتا ہے۔ کیا یہ انسان ، انسان کا فرق نہیں ؟ خواتین اور مردوں میں تفریق کی جارہی ہے۔ کیا یہ عدم مساوات نہیںہے؟ مرد روزگار کے سلسلے میں گھر سے روٹی لے کر نکلتا ہے جب کہ خاتون خانہ بے چاری صبح سے دوپہر تک بھوکی پیاسی گھریلو کام کاج میں مصروف رہتی ہے، یہ کھلا امتیاز ہے۔ ان حالات میں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے خواتین پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔ شعور بابیدہ طبقہ خاموش۔ ہم کیسے یومِ خواتین منانے کے حق دار ٹھہرے؟ جب کہ ہم خواتین کی عزت ووقار کے ساتھ ہم انصاف کرنے سے قاصر ہیں؟ کیا سال میں ایک دن خواتین کے لیے مخصوص کردینے سے ان کے حقوق ادا ہوجاتے ہیں؟ یا یومِ خواتین پر صرف چند جملے کہہ کر ہم ان کے جائز حقوق کی پاسداری کرسکیں گے؟
آخر میں ہم یہی کہنا چاہیں گے کہ خواتین کی تعظیم صرف یوم خواتین کے دن نہیں بلکہ جب تک آپ حیات ہیں اپنے اوپر خواتین کی پاسداری، تعظیم واکرام اور احترام لازم کرلیں تاکہ ہم ایک اچھے لائق تحسین معاشرہ کی تشکیل کا سبب بنیں۔