حج کے لغوی معنی کسی عظیم کام کا ارادہ کرنا، نہ کہ مطلق قصد کرنا جیسا کہ بعض لوگوں کو اس معنی کا گمان ہوا ہے ،
صاحب طحطاوی علی مراقی الفلاح رقم طراز ہیں، الحج لغۃ القصد الی معظم لا مطلق القصد کما ظنہ بعضھم؛ ص/٧٢٦
حج ایک عاشقانہ عبادت ہے، اور حج کی فرضیت اسی امت کی خصوصیت ہے، صحیح قول کے مطابق ہم سے پہلے شریعت میں حج فرض نہیں رہا ہے،( حوالہ بالا) حدیث پاک میں اس کے بے شمار فضائل وارد ہیں،
سیدنا حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں، آقائے نامدار جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا؛ جس نے خالص اللہ تعالیٰ کے لئے حج کیا، اور فحش باتیں نہیں کیں، اور نہ ہی حکم عدولی کی، تو حج کے بعد وہ اس دن کی طرح لوٹے گا، جس دن اس کی ماں نے اسے گناہوں سے پاک صاف جنا تھا،
مشکوۃ شریف؛ کتاب المناسک ص/ ٢٢١ ؛
فحش باتیں دو طرح کی ہوتی ہیں، ایک تو وہ جو حج سے قبل بھی ناجائز تھیں ، مثلاً گالی گلوچ، جھگڑا وغیرہ، تو حج کے زمانے میں ایسا کوئی گناہ کا کام کرنا اور زیادہ سنگین ہوجاتا ہے، دوسرے وہ جو پہلے سے جائز تھی، مثلاً اپنی بیوی سے بےحجابی کی باتیں کرنا، حج میں یہ بھی جائز نہیں رہتیں ،
ولم یفسق؛ اور حاجی اپنے حج کے زمانہ میں حکم عدولی بھی نہیں کی :ملا علی قاری نے اس کی توضیح اس طرح کی ہے، حج میں اس نے گناہ کبیرہ کا ارتکاب کیا،اور نہ ہی صغیرہ پر اصرار اور نہ اپنے کیے گناہوں سے توبہ کو ترک کیا،بلکہ وہ گناہوں سے توبہ کرتا رہا، الخ مرقات المفاتيح :ج/٥ :ص ٣٨٢
دوسری روایت میں ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ حج مقبول کا بدلہ بجز جنت کے کچھ نہیں ہے، مرقات المفاتيح :حدیث نمبر (٢٥٢٣) ج/٥ : ص٣٨٣
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :حاجی جب بھی تلبیہ پڑھتا ہے، تو اس کے دائیں بائیں جانب جو پتھر درخت ڈھیلے وغیرہ ہوتے ہیں، اس کے ساتھ مل کر تلبیہ پڑھتے ہیں، اسی طرح سلسلۂ زمین کے منتہاء تک یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے، الخ
علامہ طیبی اس حدیث پاک کی تشریح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ حاجی کے ساتھ تلبیہ پڑھنے میں زمین کی ساری مخلوق اس کی موافقت کرتی ہے، الخ
مرقات المفاتيح :حدیث نمبر(٢٥٥٠) ج٥/ ص ٤١٨
یہ حج کے مناقب و فضائل ہیں، حج کا فریضہ جب کسی پر عائد ہوجائے، تو بلا کسی تاخیر کے فوراً اس کی ادائیگی سے سبکدوش ہونا چاہئے، تاہم ہمارے معاشرے کا یہ بڑا المیہ ہے کہ عام طور پر حج کرنے کا خیال لوگوں کو تب ہوتا ہے جب اس کی عمر ڈھل جاتی ہے، اس کے اعضاء جواب دے جاتے ہیں، بالکل شباب اور عین جوانی کے عالم میں شاید ہی کچھ دین کے صحیح سمجھ رکھنے والے حج کرتے ہیں، اور کچھ تو ایسے لوگ بھی ہیں جو آج کل پر ٹال جاتے ہیں پھرقضا خود آکر اسے دار فانی سے دار جاودانی پہونچا دیتی ہے، اب وہ اپنے مال و دولت سے بےبس ہوتا ہے، اور حج کے فریضہ کی ادائیگی سے بھی محروم ہوجاتا ہے، اس کے فریضہ حج کی ادائیگی اس کے ورثہ کے رحم و کرم پر ہوتا ہے، اگر اس کے ورثہ کو دین کی صحیح سمجھ بوجھ ہے ، تو حج بدل سے اس کی تلافی کراتے ہیں، ورنہ اتنا بھی نہیں ہوتا، افسوس کا مقام ہے کہ اللہ کی دی ہوئی پوری زندگی میں حج جیسی محبوب عبادت بھی بجا نہ لاسکا، فیاللعجب : حالانکہ حدیث پاک میں وارد ہے من أراد الحج فلیعجل؛ جو شخص حج کا ارادہ کرے، تو اسے اس کی ادائیگی میں جلدی کرنی چاہئے،
مرقات المفاتيح :ج /٥ ص٣٩٨
علامہ طیبی فرماتے ہیں، من قدر علی الحج فلیغتنم الفرصۃ ؛ جو شخص حج پر قادر ہوجائے، تو اسے وقت فرصت کو غنیمت جاننا چاہئے، ملا علی قاری فرماتے ہیں، ہمارے نزدیک اصح قول کے مطابق حج کی فرضیت کے بعد بلا تاخیر حج کی ادائیگی واجب ہے،( حوالہ بالا)
ہمارے معاشرے میں یہ غلط فہمی بھی بہت عام ہے کہ اگر کسی کے پاس چودہ پندرہ سال کی بچی ہے، تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک میں اس کی شادی نہ کرا دوں، میرا حج درست نہیں ہوگا، اور پھر وہ اس شادی کے نام پر کئی سال نکال دیتے ہیں، پھر نہ تو جلد بچی کی شادی کراتے ہیں اور نہ ہی فریضہ حج کی ادائیگی سے سبک دوشی حاصل کرتے ہیں، حالانکہ یہ بات بالکل بے بنیاد ہے، جس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے، بلکہ شریعت مطہرہ میں اس کے خلاف صراحت موجود ہے کہ فرضیت حج کے بعد بلا تاخیر اس کی ادائیگی واجب ہے، جیسا کہ اوپر مذکور ہوا ہے،
ملا علی قاری نے فقیہ شجاع کے واسطہ سے امام ابو حنیفہ کی ایک روایت نقل کی ہے :اگر کسی کے پاس اتنی رقم موجود ہو جس سے وہ اپنا فریضہ حج ادا کر سکتا ہے، اور اسے اپنی شادی کا بھی ارادہ ہے، تو ایسے شخص کے لئے شریعت کا حکم یہ ہے کہ پہلے وہ اپنے ذمہ عائد فرض حج کی ادائیگی کرے،( حوالہ بالا) اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ فریضۂ حج اپنے نکاح سے بھی مقدم ہے، تو جو لوگ اپنی بیٹی کی شادی کی آڑ میں اس اہم ترین فریضۂ حج سے خواہ مخواہ ٹال مٹول کرتے ہیں، ان کا یہ عمل کس حد تک روا ہوگا، اللہ تعالیٰ ہمیں عقل سلیم عطا فرمائے آمین