اکولہ ، صحافی سجاد حسین پر جان لیوا حملہ صحافیوں کا زبردست احتجاج، ملزمان کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ
Author -
personحاجی شاھد انجم
اگست 03, 2025
0
share
کھام گاؤں (واثق نوید) روزنامہ سفّہ کے چیف ایڈیٹر سجاد حسین اور ان کے رفقاء پر تلوار، چھری اور بھالے جیسے مہلک ہتھیاروں سے کیے گئے خطرناک حملے نے اکولا کے صحافتی حلقوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس واقعے کے خلاف اکولہ کے تمام صحافتی تنظیمیں متحد ہو کر پولیس سپرنٹنڈنٹ ارچت چانڈک سے ملاقات کی، اور مجرموں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کے مطالبے پر مبنی ایک یادداشت پیش کی۔ مورخہ 29 جولائی 2025 کو اکولہ پولیس کی جانب سے ‘آپریشن پِرہار’ کے تحت ایک کارروائی کا سرکاری پریس نوٹ جاری کیا گیا، جس میں بتایا گیا تھا کہ اکولہ و بالا پور تعلقہ کے دو مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے افراد کو تڑی پار (ضلع بدر) کیا گیا ہے۔ اس اطلاع کو روزنامہ سفّہ نے معمول کے مطابق خبر کی صورت میں شائع کیا۔ مگر خبر کے شائع ہونے کے بعد انہی افراد نے ایڈیٹر سجاد حسین اور ان کے ساتھیوں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔ چند دن بعد ملزمان اپنے ساتھیوں کے ساتھ اخباری دفتر میں داخل ہوئے اور وہاں موجود صحافیوں پر مہلک ہتھیاروں سے حملہ کر دیا، جس میں چار صحافی شدید زخمی ہوئے۔ اس افسوسناک واقعے کے بعد اکولہ کے مختلف صحافتی تنظیموں نے زبردست احتجاج درج کیا۔ مرہٹی جرنلسٹ اسوسی ایشن کے صدر شوقت علی میر، وائس آف انڈیا جرنلسٹس یونین کے صدر سنجے کھانڈےکر، مہاراشٹر بہوجن پترکار سنگھ کے جنرل سیکریٹری جاوید زکریا کے علاوہ صحافت سے جڑے معروف افراد جیسے بدھن گاڈےکر، سعید خان، رضوان خان، کمل کشور شرما، نریندر شرما، پی ٹی دھانڈے، شاہد اقبال، گووردھن روھڑا، انوپ روھڑا، غلام محسن، عمران خان (بھاسکر)، مہتاب شاہ، چاند رضوی، محمد جنید، وجے کوچے، ارشاد احمد، سمیر خان، سید سجاد، عمران پرویز، شیخ یوسف، غفران شیخ، شیخ آصف، نوشاد پٹیل، سلمان شیخ، محمد واصف ، سید جمیل اور گجانن بھاؤ وغیرہ نے شرکت کی۔ ملاقات کے دوران صحافیوں نے چند اہم سوالات بھی اٹھائے: اگر سرکاری پریس نوٹ پر مبنی خبر پر حملہ ہوتا ہے، تو اس کی ذمہ داری آخر کس کی ہے؟ پہلے ہی شکایت درج ہونے کے باوجود فوری کارروائی کیوں نہیں ہوئی؟ دیگر صحافیوں کی حفاظت کو لے کر پولیس کیا اقدامات کر رہی ہے؟ صحافیوں کی یادداشت قبول کرتے ہوئے ایس پی ارچت چانڈک نے یقین دہانی کرائی کہ اکولا پولیس اس معاملے میں مکمل سنجیدگی سے اور سختی کے ساتھ کارروائی کر رہی ہے۔ ان کے مطابق ملزمان کے خلاف زبردستی وصولی اور قتل کی کوشش (دفعہ 307 IPC) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے، جبکہ جن افراد پر پہلے سے ایک سے زائد مجرمانہ مقدمات درج ہیں، انہیں دوبارہ تڑی پار کرنے کی کارروائی بھی جاری ہے۔ ایس پی چانڈک نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ اکولہ میں گنجا، ایم ڈی، گٹکا، نشیلی اشیاء یا کسی بھی قسم کے غیر قانونی کاروبار کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ایسی مجرمانہ حرکتوں پر سخت شکنجہ کسا جائے گا، اور اس کے نتائج جلد ہی عوام کے سامنے ہوں گے۔ یادداشت کے اختتام پر تمام صحافتی تنظیموں نے واضح طور پر کہا کہ اگر مجرموں کے خلاف جلد اور سخت کارروائی نہ ہوئی، تو وہ احتجاجی تحریک کا راستہ اپنانے پر مجبور ہوں گے۔ صحافیوں نے یہ عزم بھی ظاہر کیا کہ وہ متحد ہیں اور میڈیا پر کسی بھی حملے کو کسی صورت میں برداشت نہیں کریں گے۔ یہ واقعہ نہ صرف آزادی صحافت پر حملہ ہے، بلکہ معاشرے کے سچ کو آئینہ دکھانے والوں کو خاموش کرنے کی خطرناک کوشش بھی ہے، جس کے خلاف ہر سطح پر مضبوط آواز اٹھانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔