فقہ کی بحثیت ماخذ ومصادر کتب میں کتاب الوقف پر طویل ابحاث واحکام و مسائل موجود ہیں... کچھ تو وجہ رہی ہو گی کہ فقہائے کرام نے اس باب کو تفصیل سے قرآن و احادیث سے مدلل کیا ہے... وجہ آج کل موضوع بحث بنے عنوان وقف کی املاک سے ظاہرہے..
وقف اشیاء کے تعلق سے کچھ اہم بتائیں جن کا جاننا عصر حاضر میں اشد ضروری ہو گیا ہے... نظر قارئین ہے...
وقف کی گئی اشیاء کے فوائد دنیا و آخرت دونوں سے متعلق ہے..
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب انسان فوت ہو جائے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے سوائے تین اعمال کے (وہ منقطع نہیں ہوتے): صدقہ جاریہ یا ایسا علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے یا نیک بیٹا جو اس کے لیے دعا کرے..(صحیح مسلم کتاب الوصیۃ)
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان اپنی زندگی میں نیک عمل کرتا ہے،
وہ اگرچہ اس کے مرنے پر ختم ہو جاتا ہے،لیکن اگر اس عمل کے اثرات و ثمرات اس کے بعد بھی قائم رہتے ہیں،تو اس کو اس کا اجروثواب ملتا رہتا ہے،خاص کر اولاد اگر وہ اس کی صحیح دین کے مطابق تربیت کرتا ہے،اور اس کے نتیجہ میں،وہ اس کے حق میں دعا یا صدقہ و خیرات کرتی ہے،تو اس کا اجر،اس کو ملتا رہتا ہے،یا اس نے کوئی دینی اور علمی کتاب چھوڑی،اس نے تعلیم و تدریس کے ذریعہ،اہل علم پیدا کیے،کوئی دینی مدرسہ یا مسجد بنائی،وعظ و تبلیغ کے ذریعہ لوگوں میں دین پر عمل کرنے کا جذبہ ابھارا،گویا ہر وہ کام جس کے نتائج و ثمرات پائیدار ہیں،اور اس کے بعد قائم رہیں گے،ان کی موجودگی تک اس کو ثواب ملتا رہے گا...
یاد رکھیں.... وقف اسلامی قانون کا ایک اہم جز اور مسلمانوں کی ملی زندگی کا ایک روشن رخ ہے۔مسلمانوں نے ہر دور میں اس کارِخیراورفلاحی پروگرام کورواج دیا ہے۔ وقف کی تعریف یہ ہے کہ ملکیت باقی رکھتے ہوئے جائداد کا نفع سب کے لیے یا کسی خاص طبقے کیلئے خاص کردیاجائے۔نہ اس کو بیچا جاسکتاہے اور نہ منتقل کیاجاسکتا ہے۔
لفظ وقف کے استعمال کرنے سے وقف تام(یعنی مکمل) وقف لازم آجاتاہے۔ اب اس کا بیچنا،ہبہ(گفٹ کرنا)وغیرہ حرام و ناجائزہوجاتاہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ ’’اگرتم چاہوتو اس کی اصل کو باقی رکھ کر اس کی پیداوارکو صدقہ کردو مگریہ کہ اس کی اصل نہ بیچی جاسکتی ہے۔نہ خریدی جاسکتی ہے اور نہ ہی اس میں وارثت جاری ہوسکتی ہے..
اسلام میں سب سے پہلا وقف رسول اللہ ﷺنے کیا ۔آپ ﷺنے سات باغوں کووقف کیا جو اسلام میں پہلاوقف خیری تھا۔ دوسرا وقف اسلام میں خلیفہ دوم سید نا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کیا۔ اس کے بعد آپ ﷺ کے زمانہ ہی میں صحابہ کرام نے کئی وقف کیے۔جب پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی شوشل مسئلہ آتاتوآپﷺ صحابہ کرام کو ترغیب دیتے،صحابہ کرام فوراََ وہ چیز دے دیتے ۔اسلام کے مالیاتی نظام میں وقف کو ایک بنیادی حیثیت حاصل ہے۔اسلامی تاریخ کے ہردور میں غریبوں اورمسکینوں کی ضروریات کو پوراکرنے ،انہیں معاشی طورپر خود کفیل بنانے ،مسلمانوں کو علوم و فنون سے آراستہ کرنے ،مریضوں پریشان حالوں کی حاجت روائی کرنے اور اصحاب علم و فضل کی معاشی کفالت میں اسلامی وقف کا بہت اہم رول رہا ہے..
حضرت ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ نے اپنا بیرحاباغ جو اُنہیں بہت ہی پسند تھا،اللہ کے راہ میں وقف کیا۔وقف مزروعہ اورغیرمزروعہ زمینیں،مکانات،دُکانیں،گاڑیاں یعنی ہرقابل انتفاع چیز جس میں دوام کی صفت پائی جاتی ہو،وقف کی جاسکتی ہے۔وقف انسان کو خیر کے کاموں میں آگے بڑھنے کی ترغیب دیتا ہے اوردراصل یہ انفاق فی سبیل اللہ یعنی اللہ کے راستے میں مال خرچ کرنے کا ایک دوامی طریقہ ہے، جو انسان کے لیے تسلسل کے ساتھ ذخیرہئ آخرت بنتا رہتا ہے اوراس سے انسان کی مال وعزت میں اضافہ ہوتا ہے..
شرع میں وقف کا معنی یہ ہے کہ کسی چیز کو اپنی ملک سے نکال کر الله تعالی کی ملک میں کر دینا تاکہ اس سے مخلوق خدا کو فائدہ حاصل ہوتا رہے..
اگر کسی نے اپنی زندگی میں کوئی زمین بنام مدرسہ وقف کر دی تھی تو وہ وقف تام اور صحیح و لازم ہو گیا اب اس کی خرید فرخت کرنا ہر گز جائز نہیں،در مختار میں ہے:’’فاذا تم و لزم لا يملك ولا يعار ولا يرهن‘‘۔(در مختار مع رد المحتار، کتاب الوقف، ج:٦، ص:٥٣٩، دار عالم الكتب)
بہار شریعت میں ہے:’’وقف کو نہ باطل کر سکتا ہے نہ اس میں میراث جاری ہوگی نہ اس کی بیع ہو سکتی ہے نہ ہبہ ہو سکتا ہے‘‘۔(بہار شریعت، ج:٢، ص:٥٢٣، مکتبۃ المدینہ)
اسی میں ہے:’’ وقف کا حکم یہ ہے کہ نہ خود وقف کرنے والا اس کا مالک ہے نہ دوسرے کو اس کا مالک بنا سکتا ہے نہ اس کو بیع کر سکتا ہے نہ عاریت پر دے سکتا ہے نہ اس کو رہن رکھ سکتا ہے‘‘۔ ( مرجع سابق ص: ٥٣٣)
اور وقف شدہ زمین سے جب تک فائدہ حاصل کرنا ممکن ہو تو اس کا کسی دوسری زمین سے استبدال بھی جائز نہیں..
بہار شریعت میں ہے:
وقف کے لیے مخصوص الفاظ ہیں جن
سے وقف صحیح ہوتا ہے مثلا :
اللہ تعالی کے لیے میں نے اسے وقف کیا۔
مسجد یا مدرسہ یا فلاں نیک کام پر میں نے وقف کیا۔
یا فقرا پر وقف کیا۔(بہار شریعت، حصہ: ۱۰، ص: ٥٢٤، مجلس المدینہ)
وقف الفاظ کے ساتھ تام ہوتا ہے بعد کی تحریر سے کالعدم نہ ہوگا۔
وقف کے شرائط
وقف چونکہ ایک قسم کا تبرع یعنی نفلی عبادت ہے کہ بغیر معاوضہ اپنا مال اپنی مِلک سے خارج کرنا ہے، لہٰذا تمام وہ شرائط جو تبرعات میں ہیں یہاں بھی معتبر ہیں اور ان کے علاوہ بھی شرطیں ہیں ۔ وقف کے شرائط یہ ہیں.
(١) واقف کا عاقل ہونا۔
(۲)بالغ ہونا۔ نا بالغ اور مجنون نے وقف کیا یہ صحیح نہیں ہوا۔
(۳)آزاد ہونا۔ غلام نے وقف کیا صحیح نہ ہوا۔ اسلام شرط نہیں ، لہٰذا کافر ذمی کا وقف بھی صحیح ہے۔ مثلاً یوں کہ اولاد پر جائداد وقف کی کہ اُس کی آمدنی اولاد کو نسلاًبعد نسل ملتی رہے اور اولادمیں کوئی نہ رہے تو مساکین پر صرف کی جائے یہ وقف جائز ہے.
وقف ایک صدقہ جاریہ ہے کہ واقف ہمیشہ اس کا ثواب پاتا رہے گا اور سب میں بہتر وہ وقف ہے جس کی مسلمانوں کو زیادہ ضرورت ہو اور جس کا زیادہ نفع ہو مثلاًکتا بیں خرید کر کتب خانہ بنایا اور وقف کردیا کہ ہمیشہ دین کی باتیں اسکے ذریعہ سے معلوم ہوتی رہیں گی۔
ملک کی اقلیتوں کے معاملات میں مداخلت کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے مرکزی حکومت نے اب وقف ایکٹ میں ترمیم کا فیصلہ کیا ہے تاکہ وقف املاک کے معاملے میں وقف بورڈ کے اختیارات کو محدود کیا جاسکے..
موجود وقف ایکٹ سے کیا ہو سکتا ہے..
اوقاف سے متعلق 1923 کا قانون منسوخ کر کے نیا قانون متعارف کرایا جا رہا ہے
وقف جائیدادوں کا فیصلہ اور تعین سروے کے بعد کلکٹر یا ڈپٹی کلکٹر کرے گا، مجوزہ ترمیم
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ بل منظور ہو جاتا ہے تو وقف بورڈز کا انتظام مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل کر حکومت کے پاس چلا جائے گا
حکومت نے بل کے دفاع میں کہا ہے کہ اس کا مقصد اوقاف کی جائیدادوں پر مافیہ کے قبضے کا خاتمہ ہے
مسلم تنظیموں کا کہنا ہے حکومت نے ایسا راستہ کھول دیا ہے جس کے بعد مسلمانوں کی وقف جائیدادوں کو اب غیر مسلم ایڈمنسٹریٹر چلائیں گے۔
اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ اوقاف سے متعلق نئے قوانین سے مذہبی منافرت اور مختلف برادریوں کے درمیان تفریق پیدا ہو گی۔
مسلمانوں کو فکر مند ہونا چاہیے، وقف املاک کا تحفظ ہر قیمت پر ضروری...
وقف جائیدادیں مسلمانوں کا قیمتی اثاثہ ہیں، اس لیے اسے مسلمانوں کے استعمال میں ہی رہنے دینا چاہیے اور جن مقصد کے لیے جائیداد کو وقف کیا گیا ہے، اسے اسی استعمال میں رہنے دینا چاہیے۔ حکومت کو اس سلسلے میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔