اے شفا بانٹنے والے، اے زندگی کے امین!
یاد رکھ، تُو محض ایک انسان نہیں،
اللہ رب العزت کا منتخب کردہ ایک ذریعہ ہے۔
وہ مالکِ مختار، شافعیِ مطلق،
جس نے تجھے اپنے علم سے نوازا،
تجھے ہاتھ دیے… وہ ہاتھ جو نبضِ زندگی تھامتے ہیں،
وہ انگلیاں… جو دوا نہیں، دُعا لکھتی ہیں۔
اُس نے تجھے ڈوبتی سانسوں میں روشنی کی جھلک دکھائی،
دل کی تھمی دھڑکنوں کو چلانے کا فن عطا کیا،
علم و فن کی میراث تیرے ہاتھ میں رکھی،
اپنی مخلوق میں تجھے عظمت کا تاج پہنا دیا۔
مگر سن!
یہ عظمت، یہ فضیلت، یہ شرف…
ایک آزمائش بھی ہے، ایک امانت بھی۔
یہ شفاء کے دست بنے رہیں،
یہ ہاتھ کبھی کسی کا گلا نہ گھونٹیں،
نہ زبان زہر گھولے،
نہ آنکھ تکبر میں دیکھے۔
اے مسیحا!
اپنے پیشے کو صرف روزگار نہ بنا،
اسے عبادت سمجھ، خدمت جان،
اور اس میں خلوص کا رنگ بھر دے۔
آج، یومِ ڈاکٹر پر،
عقیل کی یہی دعا ہے،
یہی سب کی دعا ہے:
کہ تو شفا کا ذریعہ رہے،
رحمت کا سبب بنے،
اور رب کی رضا کا وسیلہ۔