آئینی حقوق کی پامالی اور مسلم سماج کا ریزرویشن عقیل خان بیاولی سابق پرنسپل، جلگاؤں
Author -
personحاجی شاھد انجم
ستمبر 03, 2025
0
share
ہندوستانی جمہوریت کی ریڑھ کی ہڈی اس کا آئین ہے۔ یہی آئین ہر شہری کو مساوات، انصاف اور مواقع کی ضمانت دیتا ہے۔ دستور کی دیباچہ (پری ایمبل) سے لے کر دفعات 14، 15 اور 16 تک صاف صاف درج ہے کہ کسی بھی شہری کے ساتھ مذہب، ذات یا برادری کی بنیاد پر امتیاز روا نہیں رکھا جائے گا۔ مگر افسوس کہ عملی زندگی میں یہ اصول اکثر کھوکھلے ثابت ہو رہے ہیں۔مہاراشٹر میں مراٹھا سماج کے مطالبات پر حکومت نے فوری قدم اٹھاتے ہوئے ان کی آٹھ میں سے چھ مانگیں منظور کیں، جو یقیناً قابلِ تحسین ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب ہائی کورٹ مسلم سماج کو 5 فیصد تعلیمی ریزرویشن پہلے ہی منظور کر چکا ہے تو اس پر آج تک عمل درآمد کیوں نہیں ہوا؟ یہ صرف نظراندازی نہیں بلکہ عدالت کے فیصلے کی صریح توہین ہےمزید افسوس کی بات یہ ہے کہ کسی بڑے سیاسی جماعت نے بھی اس اہم مسئلے پر سنجیدہ موقف اختیار کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ یہ صورت حال اقلیتی سماج کے آئینی حقوق کے ساتھ کھلا ناانصافی ہے۔مسلم سماج کے طلبہ اور نوجوان آج بھی تعلیم اور روزگار کے مواقع میں مسلسل ناانصافی جھیل رہے ہیں۔ دستور کی طرف سے دی گئی مساوات محض کاغذوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ وزیر اعلیٰ دیویندر فڑنویس کا یہ بیان کہ ’’حکومت سبھی سماج کو مساوی انصاف اور مواقع فراہم کرے گی‘‘ کہیں ایک کھوکھلا وعدہ نہ بن جائے، اس پر عمل درآمد ضروری ہے۔ کیونکہ جب حکومت عدالت کے فیصلوں پر ہی عمل نہیں کرتی تو عوام کا اعتماد نہ صرف حکومت بلکہ عدلیہ اور پورے جمہوری نظام سے اٹھنے لگتا ہے۔ ایکتا تنظیم جلگاؤں نے بالکل بجا مطالبات پیش کیے ہیں, مسلم سماج کے لیے منظور شدہ 5 فیصد تعلیمی ریزرویشن کا فوری نفاذ،مراٹھا سماج کی طرح مسلم سماج کو بھی مساوی انصاف،اور اس مسئلے پر حکومت کا واضح اور دوٹوک موقف۔یہ مطالبات کسی خصوصی رعایت کے نہیں بلکہ آئین کی طرف سے دیے گئے جائز حقوق کے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ان مطالبات کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے جلد فیصلہ کرے۔ ورنہ احتجاج اور عدم اطمینان کی راہیں کھلیں گی، جس کی مکمل ذمہ داری خود حکومت پر آئے گی۔آج یہ سوال صرف ریزرویشن کی حد تک محدود نہیں ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ: کیا دستور میں دیے گئے حقوق سبھی شہریوں کو یکساں طور پر مل رہے ہیں یا نہیں؟ اگر اقلیتی سماج کو مسلسل محروم رکھا گیا تو یہ صرف اسی سماج کا نقصان نہیں بلکہ پورے جمہوری نظام کی ناکامی ہوگی۔اس موقع پر تنظیم کے عہدیداران مفتی خالِد، فاروق شیخ، انور سکّلگر، حافظ عبد الرحیم پٹیل، انیس شاہ، مظہر پٹھان، متین پٹیل، عمر قاسم اور نجم الدین شیخ موجود تھے۔